بتایا جائے ای سی ایل رولزتبدیلی سے کن اراکین کو فائدہ ہوا

عدالت عظمیٰ نے حکومت کی جانب سے ای سی ایل کی فہرست سے نکالے گئے ناموں پر اظہار تشویش کرتے ہوئے سوال اٹھایا کہ ای سی ایل سے نام نکالنے کیلئے قوانین میں تبدیلی کا اطلاق ماضی سے کیسے ہو سکتا ہے؟
مقدمات کا سامنا کرنے والے کابینہ میں شامل کسی وزیر کا رولز کی تبدیلی کی منظوری دینا مفادات کا ٹکراؤ ہے، سپریم کورٹ میں چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بینچ نے کیس کی سماعت کی۔
چیف جسٹس نے کہا کہ 22 اپریل 2022 کو ای سی ایل رولز میں تبدیلی کی گئی، کرپشن، ایک کروڑ روپے کی ٹیکس چوری کے مقدمات کے بارے میں نام ای سی ایل سے نکال دیئے گئے، اٹارنی جنرل بتائیں کہ ای سی ایل رولز کے سیکشن دو میں کیسے ترمیم کی گئی؟ کیا ترمیم کرتے وقت متعلقہ اداروں سے مشاورت کی گئی؟
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ کیا رولز میں تبدیلی کے بارے میں کابینہ سے منظوری کے نوٹیفیکیشن میں یہ لکھا گیا کہ اس کا اطلاق ماضی سے ہوگا؟ مقدمات کا سامنا کرنے والے کابینہ میں شامل کسی وزیر کا رولز میں تبدیلی کی منظوری دینا مفادات کا ٹکراؤ ہے، تفصیلات فراہم کریں کابینہ میں شامل کن ارکان کو فائدہ پہنچا؟
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ہم چاہتے ہیں کہ قانون کی عمل داری ہو۔ہم ایگزیکٹیو کے اختیارات میں مداخلت نہیں کریں گے، چیف جسٹس نے کہا کہ ’ہم ابھی کوئی آرڈر پاس نہیں کر رے لیکن ایسا کوئی شخص جس کے خلاف مقدمہ ہو وہ ملک سے باہر نہیں جائے گا۔
اٹارنی جنرل اشتر اوصاف نے عدالت میں بتایا کہ کابینہ کی منظوری کے منٹس عدالت میں پیش کر دوں گا، دیکھ لیتے ہیں کہ کیا وہ ممبران جن کے نام ای سی ایل میں تھے وہ ترمیم والی کمیٹی کے اجلاس میں موجود تھے یا نہیں؟ وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے ای سی ایل رولز میں ترمیم تجویز کی۔
چیف جسٹس نے ہدایت دیں کہ ای سی ایل رولز میں ترمیم کے طریقہ کار سے متعلق رپورٹ عدالت میں جمع کروائیں، جسٹس اعجاز الحسن نے ریمارکس دیے کہ ایف آئی اے رپورٹ سے تاثر ملا کہ بہت سے معاملات کو غیر سنجیدہ اقدامات کے ذریعے کور کیا گیا۔
وزارت قانون نے 13 مئی کو سکندر ذوالقرنین سمیت ایف آئی اے پراسیکیوٹرز کومعطل کیا، بظاہر ایف آئی اے پراسیکیوٹرز کو کیس کی دو سماعتوں میں پیش نہ ہونے کی بنیاد پر معطل کیا گیا، جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ پراسیکیوٹرز کو تبدیل کرنے کیلئے حقائق کو توڑ مروڑ کر پیش کیا گیا۔
وزیراعظم کے وکیل عرفان قادر سپریم کورٹ میں پیش ہوئے اور کہا کہ ملک میں دو سیاسی جماعتوں کے درمیان کشیدگی چل رہی ہے، دو پارٹیوں کی کشیدگی کے درمیان عدالت ہے، میں عدالت کی معاونت کرنا چاہتا ہوں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ سیاسی شخصیات کے حوالے سے تفصیل میں نہیں جائیں گے، آپ نے کچھ کہنا ہے تو لکھ کر دے دیں، عدالت کسی کا انفرادی کیس نہیں بلکہ سسٹم کو دیکھ رہی ہے، عدالت نے کیس کی مزید سماعت غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کر دی۔

Related Articles

Back to top button