صدارتی نامزدگی کے بعد ٹرمپ جوبائیڈن پر برس پڑے

ری پبلکن پارٹی کی جانب سے ‘صدارتی امیدوار’ کےلیے نامزدگی قبول کرنے پر امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ اپنے سیاسی حریف اور سابق نائب صدر جوبائیڈن پر برس پڑے۔
ڈونلڈ ٹرمپ نے ری پبلکن کنونشن میں اپنے آخری خطاب میں کورونا وائرس کے خلاف بہتر حکمت عملی پر بات کرنے کے علاوہ کہا کہ امریکی مستقبل کو محفوظ بنانے کےلیے ڈیموکریٹ کے نامزد امیدوار جو بائیڈن کو شکست دینی پڑے گی۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ سابق نائب صدر کی امریکا سے محب الوطنی پر بھی سوال اٹھایا۔
امریکی صدر نے کہا کہ جوبائیڈن نے گزشتہ 4 برس میں ملک کو جو نقصان پہنچایا ہے اس کی مثال 47 برسوں میں نہیں ملتی۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے بنیاد پرست قوتوں کے خلاف خود کو آخری رکاوٹ کے طور پر پیش کرتے ہوئے کہا کہ جوبائیڈن اور ان کی جماعت نے متعدد مرتبہ امریکا کو نسلی، معاشی اور معاشرتی ناانصافی کی سرزمین کے طور پر پیش کیا۔ انہوں نے کہا کہ تو آج رات میں آپ سے ایک بہت آسان سا سوال کرتا ہوں کہ جب ڈیموکریٹ پارٹی ہمارے ملک کو تقسیم کرنے میں اتنا وقت خرچ کرتی ہے تو وہ ہمارے ملک کی رہنمائی کس طرح کر سکتے ہیں؟
علاوہ ازیں ٹرمپ نے کہا کہ بائیں بازو کے پسماندہ نظریہ میں وہ امریکا کو سب سے زیادہ آزاد، انصاف پسند اور غیر معمولی قوم کے طور پر نہیں دیکھتے ہیں۔
ری پبلکن دعویٰ کرتے ہیں کہ کیونوشا اور کچھ دوسرے امریکی شہروں میں جو نسلی فسادات اور تشدد برپا ہوا ہے اس کے ذمہ دار ڈیموکریٹک گورنرز اور میئرز ہیں۔ اس سے قبل نائب صدر مائک پینس نے کہا تھا کہ امریکی ‘جو بائیڈنز امریکا’ میں محفوظ نہیں رہیں گے۔
ایم ایس ڈی بی سی پر سابق نائب صدر جوبائیڈن نے کہا تھا کہ ہمارا جو سب سے بڑا مسئلہ ہے وہ یہ ہے کہ ہم ڈونلڈ ٹرمپ کے امریکا میں ہیں۔ سابق امریکی نائب صدر اور رواں برس نومبر میں ڈیموکریٹک کے صدارتی امیدوار 77 سالہ جو بائیڈن نے اعلان کیا تھا کہ اگر وہ امریکی صدر بن جاتے ہیں تو وہ ڈونلڈ ٹرمپ کے ایک غلط فیصلے کو برقرار رکھیں گے۔
جو بائیڈن کا کہنا تھا کہ اگر وہ انتخابات جیت جاتے ہیں تو وہ ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے اسرائیل میں امریکی سفارت خانے کو تل ابیب سے یروشلم منتقل کرنے والے فیصلے کو اختلافات کے باوجود تسلیم کریں گے اور امریکی سفارت خانے کو دوبارہ منتقل نہیں کریں گے۔
خیال رہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے صدر بننے کے ایک سال بعد ہی عالمی تنقید کے باوجود دسمبر 2017 میں یروشلم (بیت المقدس) کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنے کا اعلان کیا تھا۔
امریکا کے اس متنازع فیصلے پر مسلم ممالک سمیت امریکا کے اتحادی و قریبی یورپی ممالک نے بھی تنقید کی تھی، تاہم اس کے باوجود امریکا نے اگلے ہی سال مئی 2018 میں اسرائیل میں اپنا سفارت خانہ تل ابیب سے یروشلم منتقل کردیا تھا۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button