پشاور BRT منصوبے کے آڈٹ میں 50 ارب روپے کی کرپشن

بلآخر برسوں سے خیبر پختونخواہ کی حکومت پر پشاور بی آر ٹی پروجیکٹ میں لگنے والے کرپشن کے الزامات کی تصدیق ہوگئی ہے۔ خیبر پختونخوا کے آڈیٹر جنرل کی جانب سے پشاور بس ریپڈ ٹرانزٹ کی ایشیائی ترقیاتی بینک کو جمع کروائی گئی رپورٹ میں اس منصوبے میں تقریباً 50 ارب روپے کی ہیرا پھیری کا انکشاف ہوا ہے۔ یہ رپورٹ مالی سال 2020 اور 2021 کے لیے ہے، تاہم ایشیائی ترقیاتی بینک نے اسے مارچ 2022 میں وصول کیا تھا۔
انڈپینڈنٹ اردو کے مطابق 71 صفحات پر مشتمل آڈٹ رپورٹ میں بی آر ٹی کے مختلف شعبوں میں مالی بے قاعدگیوں کی نشاندہی کی گئی ہے۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ان تمام مالی بے قاعدگیوں پر جواب حاصل کرنے کے لیے آڈیٹر جنرل کی جانب سے متعلقہ ادارے کو نومبر 2021 میں خط لکھ دیا گیا تھا تاہم کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔
آڈٹ رپورٹ کے مطابق بی آر ٹی منصوبے کے لیے 53 ارب روپے سے زائد قرضے کو خرچ کرنے کا متعلقہ ادارہ پی ڈی اے جبکہ باقی ماندہ 13 ارب روپے سے زائد رقم لگانے کا متعلقہ ادارہ ٹرانس پشاور ہے، جو بی آر ٹی کے آپریشنز چلاتا ہے اور یہ دونوں ادارے اس منصوبے پر عمل درآمد کے ادارے ہیں۔ آڈٹ رپورٹ کے مطابق اس پورے منصوبے کو مکمل کرنے کے لیے 47 ارب روپے سے زیادہ کی رقم صوبائی وزارت قانون سے منظوری لیے بغیر لگائی گئی۔
رپورٹ میں درج ہے کہ خیبر پختونخوا رولز آف بزنس 1985 کی دفعہ پانچ کے مطابق محکمے کی انتظامیہ اس بات کی پابند ہے کہ وہ اس قسم کی ادائیگیوں کی تفصیلات دیکھ کر اس کی منظوری دے تاہم بی آر ٹی منصوبے میں جون 2021 تک ٹھیکے داروں کو 47 ارب روپے سے زائد ادائیگی کی گئی لیکن یہ ادائیگی پی ڈی اے اور ٹھیکے داروں کے مابین دستخط شدہ معاہدے کے خلاف دی گئی۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پی ڈی اے کے ٹھیکے داروں کے ساتھ دستخط شدہ معاہدے کی بھی محکمہ قانون سے منظوری نہیں لی گئی، جس کی وجہ سے یہ ادائیگی بے قاعدگیوں میں شمار ہوتی ہے۔ محکمہ آڈٹ کی جانب سے یہ تجویز ہے کہ جتنی ادائیگیاں ہوئی ہیں، ان کی محکمہ قانون سے منظوری لی جائے۔
آڈٹ رپورٹ میں لکھا گیا ہے کہ قانوناً اس بات کی اجازت نہیں ہے کہ کسی بھی منصوبے کے لیے رقم کو اس وجہ سے کسی بھی طریقے سے لگایا جائے کہ وہ لیپس نہ ہو جائے لیکن بی آرٹی منصوبے میں ایسا کیا گیا ہے۔
رپورٹ کے مطابق پی ڈی اے نے کنٹریکٹرز کو سامان اور مشینری سائٹ پر لانے کے لیے دو قسطوں میں رقم دینی تھی تاہم کنٹریکٹرز کو ایک ہی قسط میں ساری رقم دے دی گئی، باوجود اس کے کہ کنٹریکٹرز کی جانب سے سائٹ پر کوئی بھی چیز نہیں لائی گئی۔آڈٹ رپورٹ میں تجویز دی گئی ہے کہ اس رقم کی خلاف قانون ادائیگی کی تفتیش کی جائے اور جس نے خلاف قانون کام کیا ہے، اس کو قانون کے مطابق سزا دی جائے۔
آڈٹ رپورٹ میں لکھا گیا ہے کہ پہلے اس منصوبے کے مکمل ہونے کی تاریخ 30 جون 2018 دی گئی تھی اور بعد میں اس میں توسیع کر کے اسے 30 جون 2019 کر دیا گیا۔ اس کے بعد منصوبے کی تکمیل کے لیے تاریخ کو 31 اگست 2020 تک بڑھایا گیا۔ آڈٹ رپورٹ کے مطابق بی آر ٹی انتظامیہ نے کنٹریکٹرز کو یکم اپریل 2020 سے لے کر 31 دسمبر 2020 تک، 21 کروڑ سے زائد ادائیگی کی۔ آڈٹ رپورٹ کے مطابق کنٹریکٹر کو چونکہ تکمیل کے لیے 31 اگست 2020 کی تاریخ دی گئی تھی تاہم کنٹریکٹر، منصوبے کو مکمل کرنے میں ناکام رہا اور معاہدے کے مطابق تاخیر کی وجہ سے اضافی رقم کنٹریکٹر کو ہی ادا کرنی تھی لیکن اس کی ادائیگی بی آر ٹی انتظامیہ نے کی۔
آڈٹ رپورٹ میں لکھا گیا ہے کام میں تاخیر کنٹریکٹر نے کی اور کنٹریکٹر کو مورد الزام لگانے کے بجائے تاخیر کی وجہ سے اضافی رقم کا بوجھ حکومتی خزانے پر ڈالا گیا اور بعد میں بھی کنٹریکٹر سے یہ کنسلٹنسی چارجز وصول نہیں کیے گئے، ہم تجویز دیتے ہیں کہ یہ رقم کنٹریکٹر سے ریکور کی جائے اور اس بے قاعدگی میں ملوث افراد کے خلاف کارروائی کی جائے۔
آڈٹ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ بی آرٹی انتظامیہ نے کنٹریکٹر کو عملے کے واجبات کی مد میں 31 کروڑ روپے سے زائد ادائیگی کی، تاہم اس کا کوئی ثبوت یا ریکارڈ موجود نہیں ہے، جس سے پتہ لگایا جا سکے کہ یہ رقم واقعی سٹاف کو ادا کی گئی ہے۔ اسی طرح آڈٹ رپورٹ میں انکشاف ہوا ہے کہ پی ڈی اے کے پاس ایسا کوئی میکنزم موجود نہیں تھا کہ کام کے لیے رکھے گئے کنسلٹنٹ واقعی سائٹ پر موجود تھے یا نہیں جبکہ متعلقہ ادارے کی جانب سے مںظورہ شدہ سٹاف وقتاً فوقتاً تبدیل ہوتے رہتے تھے، جس سے یہ پتہ لگانا مشکل تھا کہ جس سٹاف کو تبدیل کیا گیا ہے، وہ واقعی کام کے لیے اہل تھا یا نہیں۔
آڈٹ رپورٹ میں انکشاف ہوا ہے کہ بی آر ٹی انتظامیہ نے منصوبے کے دوران سات کروڑ 30 لاکھ سے زائد کی رقم وفاقی اور صوبائی ٹیکس کی مد میں وصول کی تھی، تاہم نومبر 2021 تک اسے قومی خزانے میں جمع نہیں کروایا گیا۔ ان ٹیکسز میں خیبر پختونخوا ریونیو اتھارٹی سیلز ٹیکس، کنٹریکٹر سے انکم ٹیکس، سٹاف سے انکم ٹیکس، پروفیشنل ٹیکس، جنرل سیلز ٹیکس اور کنسلنٹنٹس سے سیلز ٹیکس شامل ہے۔ رپورٹ کے مطابق اس معاہدے میں دو چیزیں شامل تھیں، جس میں ایک کنسٹرکشن کی نگرانی اور دوسرا حصہ پراجیکٹ منیجمنٹ کی نگرانی تھی۔ جنوری 2020 سے بی آرٹی پر کام روک دیا گیا تھا اور کنٹریکٹر منصوبے کے تینوں حصوں پر کام چھوڑ کر چلا گیا تھا۔ اسی طرح آڈٹ رپورٹ کے مطابق کرونا وبا کی وجہ سے اس سال تمام تعمیراتی کام بند کردیا گیا تھا اور لوگوں کی نقل و حرکت پر بھی زیادہ تر پابندی تھی، لیکن اس دوران کنٹریکٹر کو کام کی نگرانی کے لیے رقم دینا سمجھ سے بالاتر ہے۔
آڈٹ رپورٹ کے مطابق جب تمام دنیا میں کرونا وبا کی وجہ سے نقل و حرکت محدود ہوگئی تھی لیکن اسی دوران کچھ بین الاقوامی کنسلٹنٹس کو ادائیگیاں کی گئیں، جو سمجھ سے بالاتر ہے کہ کرونا وبا کے دوران بین الاقوامی کنسلٹنٹ پشاور میں کیسے منصوبے کی نگرانی کر رہے تھے۔

Related Articles

Back to top button