6 گھنٹے غائب رہنے والے گنڈاپور کو گنجا کرنے کی دھمکی دی گئی؟
9 ستمبر کو اسلام آباد میں 8 گھنٹے تک پراسرار طور پر لاپتا رہنے والے وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین گنڈاپور بارے انکشاف ہوا ہے کہ وہ اس عرصے کے دوران ایک خفیہ ایجنسی کی تحویل میں تھے۔ بتایا جاتا ہے کہ اس دوران گنڈاپور نے تب سینیئر انٹیلی جنس حکام سے عمران خان کو زبردستی چھڑوانے کی دھمکی دینے پر معافی مانگ لی جب انہیں ان کا سر اور مونچھیں صاف کر کے گھر روانہ کرنے کی دھمکی دی گئی۔ باخبر ذرائع نے دعوی کیا ہے کہ گنڈاپور کو اپنا رویہ درست کرنے کے لیے آخری وارننگ دی گئی اور یہ بھی بتایا گیا ہے کہ بصورت دیگر انہیں یا تو تحریک عدم اعتماد کے ذریعے فارغ کروا دیا جائے گا اور یا صوبے میں گورنر راج نافذ کر دیا جائے گا۔
جیو نیوز سے وابستہ معروف تحقیقاتی صحافی اعزاز سیّد نے دعویٰ کیا ہے کہ علی امین گنڈاپور کو کسی نے اغوا نہیں کیا تھا بلکہ وہ انٹیلی جینس اسٹیبلشمنٹ کی چند طاقتور شخصیات کی جانب سے طلب کیے جانے پر خود پیش ہو گئے تھے۔ گنڈاپور کانسٹیٹیوشن ایونیو پر واقع ایک خفیہ ادارے کے دفتر بلائے گئے تھے جہاں پر داخلے سے پہلے ان کے اور ان کے ساتھیوں کے موبائل فون باہر رکھوا دیے گئے تھے۔ وزیراعلی نے اپنا موبائل فون اندر لے جانے پر اصرار کیا لیکن انہیں اس کی اجازت نہیں دی گئی۔ گنڈاپور کے قریبی ذرائع کا کہنا ہے کہ انہیں مذاکرات کے لیے بلایا گیا تھا لیکن وہاں پہنچنے پر صورت حال بالکل مختلف نکلی اور انہیں دباؤ اور دھمکیوں کا سامنا کرنا پڑا۔ اعزاز سید کا دعوی ہے کہ علی امین گنڈا پور کو تب سرکاری دفتر سے نکلنے کی اجازت ملی جب انہوں نے سینیئر انٹیلی جنس حکام کے سامنے اپنی 8 ستمبر والی تقریر پر باقاعدہ معافی مانگی اور اچھا رویہ اپنانے کی یقین دہانی کروائی۔
یہی وجہ ہے کہ اس ملاقات کے بعد علی امین گنڈا پور میں وہ اعتماد نظر نہیں آیا جو جلسہ میں نظر آیا تھا جہاں انہوں نے 15 روز میں عمران خان کو رہا کرنے کی وارننگ دی تھی اور یہ بھی کہا تھا کہ اگر ایسا نہ ہوا تو وہ جیل توڑ کر اپنے کپتان کو رہا کروائیں گے۔
تحریک انصاف کے خلاف حکومتی کریک ڈاؤن کی فوری وجہ کیا ہے ؟
دوسری جانب علی امین گنڈاپور نے اسلام آباد میں 8 گھنٹے غائب رہنے کی وضاحت دیتے ہوئے اپنی پارلیمانی پارٹی کو بتایا ہے کہ انہیں کسی نے کہیں زبردستی نہیں بٹھایا تھا بلکہ وہ سرکاری افسران کے ساتھ ایک دفتر میں میٹنگ کر رہے تھے جہان جیمر چلنے کی وجہ سے ان کا فون کام نہیں کر رہا تھا۔10 ستمبر کو پشاور میں پارلیمانی پارٹی کے اجلاس کے دوران اراکین اسمبلی کے استفسار پر وزیراعلیٰ گنڈا پور نے کہا کہ سرکاری حکام کے ساتھ ملاقات کمبی ہو گئی تھی لہازا انہیں رات وہیں پر رکنا پڑ گیا۔
اس سے پہلے اسمبلی اراکین نے وزیر اعلیٰ کے رات بھرغاب رہنے پر تشویش کا اظہار کیا تھا اور خیبر پختون خواہ حکومت کے ترجمان بیرسٹر سیف نے یہ خدشہ ظاہر کر دیا تھا کہ گنڈاپور کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔
باخبر ذرائع کا کہنا ہے کہ گنڈاپور کو 8 گھنٹے تک تحویل میں رکھنے والوں نے ان کے ساتھ اچھا سلوک نہیں کیا۔ بتایا جاتا ہے کہ گنڈاپور کو گنجا کر کے واپس روانہ کرنے کی دھمکی دی گئی۔ انہیں سخت الفاظ میں اخری وارننگ دی گئی جس کے نتیجے میں عمران خان نے اب اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ مذاکرات کے دروازے بند کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔ فوجی اسٹیبلشمنٹ کی پیداوار عمران خان کا کہنا تھا کہ اسٹیبلشمنٹ نے انہیں دھوکہ دیا ہے اور اب وہ اس پر کبھی بھروسہ نہیں کریں گے۔ جب وہ ڈیالہ جیل میں صحافیوں نے عمران سے سوال کیا کہ کیا گنڈا پور کی تقریر بغاوت کی دھمکی نہیں ہے تو انہوں نے کہا کہ وزیراعلی خیبر پختون خواہ نے جو کچھ کہا وہ اس کی تائید کرتے ہیں۔ انکا کہنا تھا کہ علی امین گنڈا پور نے قوم کے جذبات کی ترجمانی کی ہے، اور وہ ان کے ساتھ کھڑے ہیں۔ ایک صحافی نے سوال کیا کہ علی امین گنڈا پور کی تقریر پر تو آپ کے پارٹی لیڈرز معافیاں مانگ رہے ہیں؟ اس پر بانی پی ٹی آئی نے کہا کہ علی امین گنڈا پور کے بیان پر معافی مانگنے والے لوگ بزدل اور ڈرپوک ہیں اور ان کو پارٹی میں نہیں ہونا چاہیے۔
دوسری جانب گنڈاپور اسلام آباد سے واپس پشاور پہنچنے کے بعد ابھی تک میڈیا کے سامنے نہیں ائے لیکن بتایا جاتا ہے کہ پارلیمانی پارٹی سے خطاب کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے 8 ستمبر کو اسلام اباد کے جلسے میں جلسے میں جو کہا وہ اس سے پیچھے نہیں ہٹیں گے اور نہ ہی معافی مانگیں گے۔ لیکن سچ تو یہ ہے کہ ان کے اس دعوے پر ان کے اپنے ساتھی بھی یقین کرنے کو تیار نہیں۔