نواز کا مریم کے ذریعے اپنی پارٹی کا قبضہ واپس لینے کا فیصلہ

سابق وزیراعظم نواز شریف نے اپنی بیٹی مریم نواز کو پارٹی کا چیف آرگنائزر اور سینئر نائب صدر بنا کر اپنے چھوٹے بھائی شہباز شریف سے نون لیگ کا قبضہ حاصل کرنے کے عمل کا آغاز کر دیا ہے تاکہ ان کی وطن واپسی سے پہلے تمام معاملات ان کے کنٹرول میں آجائیں۔ مسلم لیگ ن کی تیس سالہ سیاسی تاریخ میں پہلی مرتبہ کسی خاتون کو پارٹی کا چیف آرگنائزر اور سینئر نائب صدر بنایا گیا ہے اور مریم نواز پارٹی کی پہلی خاتون ہیں جو بیک وقت ان عہدوں پر تعینات کی گئی ہیں۔ پارٹی چیف آرگنائزر کے طور پر اب ان کے پاس اختیار ہے کہ وہ ن لیگ کی تنظیم نو کریں اور پارٹی میں انتخابات کروائیں۔ یاد رہے کہ اس سے پہلے مریم نون لیگ کے 16 نائب صدور میں سے ایک تھیں۔ مریم پچھلے کچھ ماہ سے لندن میں اپنے والد نواز شریف کے پاس قیام پذیر ہیں۔ انہیں پارٹی کا چیف آرگنائزر اور نائب صدر بنانے کا فیصلہ بھی نواز شریف نے لندن میں کیا اور پھر شہباز شریف کو اس سے آگاہ کیا جنہوں نے بطور پارٹی صدر اس فیصلے کا اعلان کیا۔ یاد رہے کہ سپریم کورٹ کیجانب سے نواز شریف کو نون لیگ کی صدارت سے نااہل کیے جانے کے بعد شہباز شریف کو پارٹی کا صدر بنا دیا گیا تھا۔

مریم نواز سے پہلے مسلم لیگ ن کے سینئر نائب صدور کی تعداد چار تھی۔ شاہد خاقان عباسی، سردار یعقوب ناصر، پیر صابر شاہ اور سرتاج عزیز عہدوں کے اعتبار سے پارٹی صدر شہباز شریف کے بعد آتے ہیں۔ اب ان کے ساتھ پانچویں نائب صدر کے طور مریم نواز کی صورت میں اضافہ ہوا ہے۔لیکن مریم کو اضافی طاقت پارٹی کے چیف آرگنائزر کے طور پر ملی ہے جس سے اب پہلے سے موجود چار نائب صدور کی حیثیت ثانوی ہو گئی ہے۔ پارٹی ذرائع کا کہنا ہے کہ نوازشریف نے مریم کو نون لیگ کا قبضہ دلوانے کے لیے پارٹی چیف آرگنائزر کا عہدہ تخلیق کیا ہے۔ اس سے پہلے پارٹی میں یہ عہدہ نہیں تھا اور جماعت کا صدر ہی پارٹی کا چیف آرگنائزر تصور کیا جاتا تھا۔

سیاسی مبصرین کے مطابق چیف آرگنائزر اور سینئر نائب صدر بننے کے بعد پارٹی عملی طور پر مریم کے ہاتھوں میں آ گئی ہے اور اب یہ امکان پیدا ہو گیا ہے کہ نون لیگ میں نواز شریف دھڑے کے لوگوں کو ہی اہم ترین پارٹی عہدے ملیں گے۔ مسلم لیگ ن کی سیاست پر نظر رکھنے والے تجزیہ کار سمجھتے ہیں کہ مریم کو غیر اعلانیہ طور پر پارٹی کا چیف ایگزیکٹیو بنانا اس بات کا غماز ہے کہ اب نون لیگ عملی طور پر بھی شہباز شریف نہیں بلکہ مریم نواز ہی چلائیں گی۔ یاد رہے اس سے پہلے یہ فیصلہ کیا گیا تھا کہ پارٹی اور حکومت کو علیحدہ علیحدہ کر دیا جائے اور پارٹی کو حکومت پر چیک رکھنے کا اختیار دیا جائے۔ اس فیصلے کے بعد مریم نواز نے حکومت کی جانب سے مہنگائی پر قابو پانے میں ناکامی پر تنقید بھی کی تھی۔

سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ مریم نواز کو پارٹی کا چیف آرگنائزر بناکر دراصل نواز شریف نے تمام معاملات اپنے ہاتھ میں لے لئے ہیں۔ اس فیصلے کا ایک مقصد نواز شریف کی وطن واپسی سے پہلے پارٹی کو دوبارہ سے متحرک کرنا ہے تاکہ ان کا فقید المثال استقبال کیا جا سکے۔تجزیہ کار کہتے ہیں کہ مسلم لیگ ن نظریاتی طور پر دائیں بازو کی پارٹی سمجھی جاتی ہے لیکن اس کی قیادت کی جانب سے خواتین کو اہم عہدے دینا ایک اچھی ڈویلپمنٹ ہے۔ یاد رہے کہ ن لیگ کی مرکزی ترجمان مریم اورنگ زیب ہیں تو پنجاب پارٹی کی ترجمان عظمیٰ بخاری ہیں۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ مریم نواز کو کلیدی عہدے دینے کا مطلب ہے کہ سیاسی جنگ کا طبل بج چکا ہے۔ اب مریم واپس آئیں گی اور جلسے جلوس شروع کریں گی تا کہ نواز شریف کی واپسی کی فضا بن سکے۔ دوسرے لفظوں میں مسلم لیگ ن نے اب اپنے سیاسی پتے شو کرنا شروع کر دیے ہیں۔

پاکستان میں جمہوری عمل پر نظر رکھنے والے ادارے پلڈاٹ کے سربراہ احمد بلال محبوب کہتے ہیں کہ مریم نواز کو پارٹی کے اندر پاور تفویض کرنے کے دو مطلب لیے جا سکتے ہیں۔ ’پہلا تو اس کو صنفی پیرائے میں دیکھا جائے تو یہ ایک خوش آئند بات ہیں۔ اس پارٹی میں بڑے بڑے گھاگ سیاست دان بھی ہیں۔ خود اس خاندان کے اندر بھی دو اور ہم پلہ افراد ہیں۔ شہباز شریف ہیں حمزہ شہباز ہیں لیکن ایک خاتون نے اپنا اہل ہونا باقاعدہ طور پر ثابت کیا ہے۔ اور یہ سب پچھلے چند سال میں ہوا ہے۔‘

انہوں نے کہا کہ اس کا دوسرا پہلو خالصتا ًسیاسی ہے ’جس طرح کی جارحانہ سیاست عمران خان کر رہے ہیں میرے خیال میں پورے سیاسی اکھاڑے میں اگر نظر دوڑائیں تو اس کا مقابلہ صرف مریم نے کیا ہے۔ ابلاغ میں لہجے سے لے کر باڈی لینگویج سب اہم ہوتا ہے صرف الفاظ کافی نہیں ہوتے۔ تو میرے خیال میں مسلم لیگ نے محسوس کیا ہے کہ اب اسی میں ہی ان کی سیاسی عافیت ہے کہ مریم نواز پارٹی کی باگ دوڑ سنبھالیں۔‘

خیال رہے مسلم لیگ ن کی بنیاد 1993 میں نواز شریف نے رکھی تھی۔ تاہم جب ان کو سپریم کورٹ نےایک مقدمے میں نہ صرف وزیر اعظم کے عہدے سے برخواست کیا بلکہ تاحیات کسی عوامی عہدے کے لیے ناہل قرار دیا۔ جس کے بعد وہ جب پارٹی کے صدر بنے تو ملک کی سپریم کورٹ نے انہیں اس عہدے سے بھی ہٹا دیا۔ وہ قانونی  طورپر خود کوئی عہدہ نہیں لے سکتے۔تاہم سوشل میڈیا پر مریم نواز کو نون لیگ کا چیف آرگنائزر بنائے جانے کو شہباز شریف دھڑے کے لئے ایک بڑا جھٹکا بھی قرار دیا جا رہا ہے۔ مریم کو اہم ترین عہدہ ملنے پر سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر تاثرات بھی دیکھنے میں آرہے ہیں۔

وزیر اعظم شہباز شریف نے اپنی ٹویٹ میں لکھا کہ ’میں نے مریم نواز کو مسلم لیگ ن کی سینئر نائب صدر تعینات کیا ہے، ان میں امنگ ہے، عزم ہے اور پارٹی کے انتظامی امور کو چلانے کا تجربہ ہے، مجھے کوئی شک نہیں ہے کہ وہ پارٹی کے رتبے کو موثر طریقے سے بڑھائیں گی اور پارٹی قائد نواز شریف کا ویژن لائیں گی۔‘ وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے مریم نواز کے پارٹی عہدے پر براجمان ہونے کا نوٹیفکیشن جاری کرتے ہوئے انہیں مبارک باد دی اور نیک تمناؤں کا اظہار کیا۔ اینکر پرسن سلیم صافی نے اپنی ٹویٹ میں لکھا کہ ’لگتا ہے مسلم لیگ (ن) نے بھی سیاست شروع کر دی، مریم نواز پارٹی کی سینئر نائب صدر اور پارٹی کی تنظیم نو کے لیے چیف آرگنائزر مقرر۔‘

ایک اور صحافی ثاقب وِرک نے نوٹیفکیشن شیئر کرتے ہوئے کہا کہ ’صرف خاندان پر ہی محیط پارٹیوں کی ایک اور مثال۔‘ اسلام الدین ساجد نے ن لیگ کی سینئر قیادت کے بارے میں تشویش کا اظہار کرتے ہوئے ٹویٹ کیا کہ ’مریم نواز پارٹی کی سینئر نائب صدر اور چیف آرگنائزر مقرر، خواجہ آصف، احسن اقبال، سعد رفیق سمیت تمام سینئر لیڈرز مریم بی بی کے ماتحت کام کر کے اب پارٹی کو آرگنائز کریں گے۔‘ تحریک انصاف کے رہنما حماد اظہر نے ن لیگ کی خاندانی سیاست کے بارے میں تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ’سب کچھ فیملی میں ہے، مریم نواز چیف آرگنائزر بن گئی ہیں، شہباز شریف کے دھڑے کو جھٹکا لگا ہے۔‘ ایک اور صحافی مجیب رحمان نے شکوہ کیا کہ ’میاں صاحب! خدارا اپنے خاندان سے باہر بھی کسی کو دیکھ لیا کریں، آپ کی جماعت میں سینکڑوں محنتی لوگ موجود ہیں، آپ لوگ براہِ راست جماعت میں الیکشن کروائیں تاکہ آپ کے کارکنان اچھے اور سلجھے ہوئے عہدیداران کو ووٹ دے سکیں۔‘

Related Articles

Back to top button