ہم جنس پرستی پر پاکستانی فلم کے آسکر جیتنے کا امکان

فرانس سمیت دنیا میں خوب پذیرائی حاصل کرنے کے بعد ہم جنس پرستی اور مخنث افراد پر بنی پاکستانی فلم ’’جوائے لینڈ‘‘ کے آسکر جیتنے کے امکانات پیدا ہو گئے ہیں، فرانس میں ایوارڈ جیتنے والی فلم میں ’’بیبا‘‘ کے کردار کی کافی تعریف کی جا رہی ہے۔ فرانس میں منعقدہ کینز فلم فیسٹیول میں ایوارڈز جیتنے کے بعد آسکر میں ’جوائے لینڈ‘ کی نامزدگی نے فلم کی مقبولیت میں اضافہ کر دیا ہے۔ فلم میں کام کرنے والی ٹرانس جینڈر علینہ خان کے کام کا ڈنکا فرانس سمیت کئی عالمی فلمی میلے میں بج چکا ہے۔جوائے لینڈ کی ’بیبا‘ یعنی علینہ خان نے ایک مجرا کرنے والی ٹرانس جینڈر کا کردار ادا کیا ہے۔

اپنے کردار بارے گفتگو کرتے ہوئے ایک انٹرویو میں علینہ خان کا ’بیبا‘ بارے کہنا تھا کہ یہ رول ان کے لیے مشکل تھا، کیونکہ بیبا اس معاشرے میں جگہ بنانے کی کوشش کر رہی ہے لیکن اسے قبول نہیں کیا جاتا، ان کا کہنا تھا کہ ہمارے معاشرے میں بھی ٹرانس جینڈر کمیونٹی کو بہت ہی زیادہ مشکلات جھیلنا پڑتی ہیں۔ علینہ نے بتایا کہ ’جوائے لینڈ میں کام کرنے والے تمام افراد کا تعلق پنجاب سے ہے اور فلم بھی اندرون لاہور ہی فلمائی گئی ہے لیکن افسوس کہ اسے پنجاب میں نمائش کی اجازت نہیں ملی اور سنسر بورڈ نے ہنگا مہ ڈال لیا۔ انکا کہنا تھا کہ اگر یہ فلم پنجاب میں چلتی تو اس سے لوگوں کو خواجہ سراؤں کو درپیش مسائل سمجھنے میں مدد ملے گی اور ان کا مخنث افراد کے حوالے سے بھی نقطہ نظر تبدیل ہو جائے گا۔

علینہ خان نے اُمید ظاہر کی کہ جلد ہی جوائے لینڈ کو پنجاب میں بھی نمائش کی اجازت مل جائے گی۔ علینہ نے بتایا کہ انہوں نے جوائے لینڈ پہلی مرتبہ کانز فلم فیسٹیول میں دیکھی۔ فرانس کے شہر کانز کا سفر علینہ کی زندگی کا پہلا بیرونِ ملک سفر تھا جس دوران انہیں مشکلات کا سامنا بھی رہا، ان کے مطابق ایئرپورٹ پر جب وہ خواتین کی قطار میں کھڑی ہوئیں تو انہیں تضحیک کا نشانہ بنایا گیا اور مردوں کے حصے میں جانے پر مجبور کیا گیا۔ لیکن ان کا کہنا تھا کہ فرانس انہیں بہت اچھا لگا جہاں لوگوں کو جینڈر فوبیا نہیں اور ہر کوئی فن کی قدر کرتا ہے، علینہ کو توقع نہیں تھی کہ جوائے لینڈ کو عالمی فلمی میلوں میں اتنی پذیرائی حاصل ہوگی۔انکا کہنا تھا کہ جوائے لینڈ کو عالمی فلمی میلوں میں جتنا زیادہ پسند کیا گیا ہے اس سے انہیں لگتا ہے کہ یہ فلم آسکر ایوارڈ جیتنے میں کامیاب ہوجائے گی۔

علینہ خان نے بتایا کہ شروع میں ان کے اپنے خاندان نے انہیں ان کی جنس کی وجہ سے تسلیم ہی نہیں کیا تھا کیونکہ معاشرے کا بھی دباؤ ہوتا ہے، علینہ نے بتایا کہ میں جب بچپن میں اسی وجہ سے اپنے گھر سے بھاگی تو مقصد یہ ثابت کرنا تھا کہ معاشرے نے ہم پر جو چھاپ لگائی ہے وہ غلط ہے۔ گھر والے یہی سمجھتے تھے کہ یہ یا تو باقی خواجہ سراؤں کی طرح سڑکوں پر بھیک مانگے گی یا پھر جسم فروشی کرے گی، لیکن اب جب میں فلموں میں نظر آنے لگی ہوں تو وہ مجھے بہت زیادہ سراہتے ہیں اور مجھ سے خوش ہیں، اس لیے میں اداکاری جاری رکھوں گی تاکہ نوجوانوں کے لیے راستے بنا سکوں۔ علینہ نے عوام سے گزارش کی کہ مخنث افراد یا خواجہ سرائوں کو انسانوں کی طرح دیکھا جائے، انہیں دھتکارا نہ جائے، اسکے علاوہ بچوں کو بھی سکھایا جائے کہ تیسری جنس بھی اسی معاشرے کا حصہ ہے اور موقع ملنے کی صورت میں خواجہ سرا بھی محنت سے کام کرکے باعزت روزگار کما سکتے ہیں۔

سید نور نے فلاپ اداکار شان کو سپر ہٹ ہیرو کیسے بنایا؟

Related Articles

Back to top button