کیا اعظم خان کا انجام بھی فواد حسن فواد والا ہوگا؟


وزیراعظم عمران خان کے پرنسپل سیکرٹری اعظم خان کے بارے میں مختلف حکومتی شخصیات کی جانب سے اپنے اختیارات سے تجاوز کرنے کے الزامات کے بعد سے یہ بحث جاری ہے کہ کیا واقعی اعظم خان اپنے شاہ سے زیادہ طاقتور ہیں یا وہ جو بھی کچھ کرتے ہیں دراصل کپتان کے کہنے پر کرتے ہیں۔
اگر پرائم منسٹر سیکریٹیریٹ کی ورکنگ پر غور کیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ وہاں سب سے اہم شخص ملٹری سیکرٹری نہیں بلکہ وزیراعظم کا پرنسپل سیکرٹری ہوتا ہے جسے آئین کے کے تحت وزارتوں، ڈویژنوں اور اداروں کے امور سمری کی شکل میں ارسال کیے جاتے ہیں۔ پرنسپل سیکرٹری وزیراعظم کو ساری وزارتوں حتیٰ کہ آئی ایس آئی، آئی بی اور سٹریٹجیک پلانز ڈویژن جیسے حساس ترین محکموں کی سمریاں دیکھ کر فائلوں کو ضروری کارروائی کے لیے پیش کرتا ہے۔ وزیراعظم ان فائلوں پر ضروری احکامات جاری کرتا ہے اور عام طور پر اس حوالے سے کوئی رائے لینا ہو تو سب سے پہلی رائے سیکرٹری یا پرنسپل سیکرٹری ہی دیتا ہے۔ یہ عہدہ اتنا ہی پراناہے جتنا کے 1973 کے آئین کے مطابق وزیراعظم کا عہدہ۔
اس عہدے کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگا لیں کہ عام طور پر وزیراعظم کی طرف سے ملک کے عملی طور پر طاقتور ترین عہدے یعنی آرمی چیف کی تقرری کا علم بھی عام طور پر سب سے پہلے اسی شخص کو ہوتا ہے کیونکہ اسی شخص نے وزیراعظم کی طرف سے اہم اداروں کے سربراہوں کی تقرری کے احکامات متعلقہ وزارت کو ارسال کرنا ہوتے ہیں۔ پرنسپل سیکرٹری ٹو پرائم منسٹر وہ اہم عہدیدارہوتا ہے جسے وزیراعظم سول بیوروکریسی سےخود منتخب کرتا ہے۔ اس عہدے کے چناؤ کے لیے وزیراعظم عام طور پر ذہین اور نمایاں افسران میں سے ہی کسی ایک کو چنتا ہے۔ عام طور پر سیکرٹری بیوروکریسی کا گریڈ بیس یا اس سے اوپر کا سینیئر افسر ہوتا ہے۔ اس افسر کے اپنے کوئی اختیارات نہیں ہوتے بلکہ یہ وزیراعظم کے احکامات اور ہدایات کو متعلقہ وزارتوں تک پہنچاتا ہے۔ وزیراعظم کا بااعتماد ترین بیوروکریٹ ہونے کے ناطے اسے سرکاری مشینری میں کام کرنے والے تمام افسران پر فطری برتری حاصل ہوتی ہے۔
وزیراعظم عمران خان کے ساتھ سیکرٹری کے طور پر کام کرنے والے اعظم خان ہوں، دو سابق وزرا اعظم نوازشریف اور شاہد خاقان عباسی کے ساتھ کام کرنے والے فواد حسن فواد یا کوئی اور، یہ افسران دن رات وزیراعظم کے ساتھ کام کرنے کے باعث اکثر ان کی کابینہ کے وزرا سے بھی زیادہ قریب ہوجاتے ہیں۔ اقتدار کے ایوانوں میں بادشاہ سے قربت تنقید اور سازشوں کے لیے زمین بھی ہموار کردیتی ہے۔ عام طور پر جو لوگ وزیراعظم سے ناخوش ہوں تو وہ براہ راست وزیراعظم کو تنقید کا نشانہ بنانے کی بجائے سیکرٹری ٹو پرائم منسٹر پر ہی تنقید کے نشتر چلاتے ہیں۔ حالانکہ سیکرٹری تو وہی کام سرانجام دیتا ہے جو اسے وزیراعظم کہتا ہے۔ کچھ ایسا ہی جہانگیر ترین اور فردوس عاشق اعوان کے معاملے میں بھی ہوا جنہوں نے وزیراعظم کی بجائے اپنے خلاف ہونے والی کارروائیوں کا محمد اعظم خان پر ڈالنے کی کوشش کی۔
لیکن ایسا بھی نہیں کہ اس عہدے پر براجمان شخص کی اپنی پسند نا پسند یا تعصبات نہ ہوں۔ ظاہر ہے اس عہدے پر بیٹھے افراد انسان ہوتے ہیں۔ تاہم اگر وہ اپنے کسی تعصب کے زیر اثر آئیں بھی تو اس میں بھی ذہانت کے گر آزمائے جاتے ہیں۔ انھیں وزیراعظم کی قربت کے باعث اس عہدے پر براجمان شخص کی انسانی کمزوریوں کا بھی علم ہوتا ہے جسے وہ آسانی سے استعمال کرنے کا موقع بھی رکھتے ہیں۔
چنانچہ جب شوگر انکوائری کمشن رپورٹ آئی تو جہانگیر ترین نے اپنے خلاف کارروائی کا اصل ذمہ دار وزیراعظم کے پرنسپل سیکرٹری اعظم خان کو قرار دیا۔ اس کے بعد میڈیا کے اندر وزیراعظم کے سیکرٹری کے حوالے سے بحث بھی چلی کہ کیا اعظم خان جہانگیر ترین کے خلاف کوئی ذاتی رنجش کے تحت ’کارروائی‘ کر رہے ہیں؟ یا اپنے باس یعنی وزیراعظم عمران خان کی منشا کے تحت کام کر رہے ہیں؟
وزیراعظم ہاؤس کے اسرار و رموز سے واقف لوگ کہتے ہیں کہ پرنسپل سیکرٹری وہی کچھ کرتا ہے جو اسے وزیراعظم کہتا ہے۔ سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کہتے ہیں کہ عام طور پر سیکرٹری ٹو پرائم منسٹر اصول کی بات کرتا ہے۔ وہ وزیراعظم کے حکم سے ہٹ نہیں سکتا۔ سابق وزیراعظم نوازشریف کے دور میں ان کے داماد کیپٹن رئٹائرڈ صفدر نے بھی قومی اسمبلی کے ایوان میں کھڑے ہوکر پرنسپل سیکرٹری فواد حسن فواد کو تنقید کا نشانہ بنایا تھا مگر عملی طور پر وہ پرنسپل سیکرٹری کا شاید بال بھی بیکا نہ کرسکے کیونکہ وزیراعظم نوازشریف بدستور اپنے پرنسپل سیکرٹری کے ساتھ کھڑے رہے۔ شاید یہی وجہ تھی کے برطرفی کے بعد نواز شریف نے شاہد خاقان عباسی کو بھی فواد حسن فواد کے ساتھ کام کرنے کی ہدایت کی اور یوں فواد حسن فواد دو وزرا اعظم کے ساتھ جمے رہے۔ لیکن ایک بات طے ہے کہ پاکستان میں جس وزیراعظم کا دھڑن تختہ ہوتا ہے اس کے ساتھ ہی اس کے پرنسپل سیکرٹری کی باری بھی ضرور آتی ہے۔ تو کیا اگلا نمبر اعظم خان کا ہے؟

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button