شہباز حکومت چند ہفتوں سے زیادہ کیوں نہیں چل پائے گی؟

معروف اینکر پرسن اور تجزیہ کار جاوید چودھری نے کہا ہے کہ میرے خیال میں شہباز شریف کی حکومت چند ہفتوں سے زیادہ نہیں چل پائے گی، شہباز شریف اور انکے دیگر اتحادی عبوری حکومت بنا کر مشکل فیصلے اس کے کندھوں پر ڈال دیں گے۔ لیکن اگر اسٹیبلشمنٹ یہ حکومت رکھنا چاہتی ہے تو پھر اسے کھل کر حکومت کا ساتھ دینا ہوگا اور عمران سے نمٹنے کی ذمے داری بھی اپنے کندھوں پر اٹھانا ہو گی۔ اسکے علاوہ اسٹیبلشمینٹ کو اتحادیوں کو وزیراعظم کے ساتھ بٹھا کر کڑوے فیصلوں کے کڑوے گھونٹ بھی بھرنا ہوں گے ورنہ سمجھ لیں کہ یہ حکومت گئی جس کے بعد ہم بھی سری لنکا بن جائیں گے۔

اپنے تازہ سیاسی تجزیے میں جاوید چوہدری کہتے ہیں کہ ایک زمانے میں ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین ایسٹ انڈیا کمپنی کی طرح لندن میں ہوتے تھے اور پارٹی پاکستان میں ہوتی تھی۔ قائد محترم لندن سے خطاب فرمایا کرتے تھے اور پارٹی قائدین‘ سینیٹرز‘ ایم این ایز اور ایم پی ایز سمیت پورا ملک اس لائیو خطاب سے لطف اندوز ہوتا تھا۔ ان میں سے جو بھی شخص حکم عدولی کرتا تھا وہ سیکٹر کمانڈر کی درگت کا نشانہ بنتا تھا۔ پارٹی کی انتہائی سینئر اور قابل احترام قیادت تک اس عظیم مرمت کا نشانہ بنی۔ میڈیا میں سے بھی کسی چینل میں الطاف حسین کی تقریر نہ دکھانے کی ہمت نہیں تھی لہٰذا وہ تماشا لائیو پوری قوم کو دکھایا اور سنایا جاتا تھا اور جو چینل انکار کرتا تھا یا درمیان میں اشتہار چلانے کی غلطی کر بیٹھتا تھا اس کے دفتر پر حملہ ہو جاتا تھا۔ پارٹی نے کس کے ساتھ اتحاد بنانا ہے اور کب اس اتحاد سے نکلنا ہے، کب سڑکیں اور شہر بند کرنا ہے یہ فیصلہ بھی الطاف حسین کرتے تھے اور کسی کو دم مارنے کی جرات نہیں ہوتی تھی، قائد اپنے سینئر وزراء‘ رابطہ کمیٹی کے ارکان اور گورنر سندھ ڈاکٹر عشرت العباد کو اکثر لندن بلا لیتے تھے۔

بہتر ہوگا گورنر پنجاب شرافت سے گھر چلے جائیں

بقول جاوید چوہدری، یہ لوگ جھک کر قائد کو ملتے تھے‘ قائد ان کے کندھے پر تھپکی دیتا تھا، ان کے سر پر ہاتھ پھیرتا تھا اور پھر انھیں فرش پر بٹھا دیتا تھا اور پھر یہ تصویریں میڈیا کو ریلیز کر دی جاتی تھیں‘ قائد اپنے ایم این ایز کو اشارہ کرتا تھا اور یہ پارلیمنٹ ہائوس کے سامنے کھڑے ہو کر پورے شریف خاندان کو گالیاں دے دیتے تھے‘ یہ سلسلہ اگست 2016 تک ایم کیو ایم الطاف کے ایم کیو ایم پاکستان بننے تک جاری رہا، یہاں تک کہ الطاف حسین پر پابندی لگ گئی اور پارٹی چار گروپوں میں تقسیم ہو کر ’’نفیس‘‘ ہو گئی۔

جاوید کہتے ہیں کہ آپ اب اس صورت حال کو میاں نواز شریف اور ن لیگ کے ساتھ کمپیئر کر کے دیکھیں۔ پارٹی کے تاحیات قائد نے 10 مئی کو اپنے وزیراعظم اور سینئر وزراء کو لندن طلب کیا اور یہ تمام لوگ بارہ گھنٹے کے نوٹس پر لندن حاضر ہو گئے۔وزیراعظم جھک کر قائد سے ملے‘ قائد نے اپنے وزیراعظم کو تھپکی دی اور تصاویر میڈیا کو ریلیز کر دی گئیں‘ یہ یقینا چھوٹے بھائی کا بڑے بھائی سے محبت کا اظہار ہو گا لیکن اس محبت کو میڈیا میں ریلیز کرنے کی کیا ضرورت تھی؟ روپیہ اور اسٹاک ایکسچینج ’’فری فار آل‘‘ تھی‘ روپیہ روزانہ تین روپے گر رہا تھا‘ اسٹاک ایکس چینج تین دن میں اڑھائی ہزار پوائنٹس نیچے آگئی۔
ملک میں ’’حکومت جا رہی ہے‘‘ جیسی سنسنی پھیل گئی‘ آصف زرداری پریس کانفرنس کرنے پر مجبور ہو گئے‘ اتحادیوں نے ایک دوسرے سے کانا پھوسی شروع کر دی‘ سفارت کار حیرانی سے دائیں بائیں دیکھنے لگے اور پارٹی گھبراہٹ میں میڈیا سے غائب ہو گئی لیکن لندن میں تین دن تک میٹنگز پر میٹنگز چلتی رہیں اور ہر میٹنگ سے پہلے سینئر ترین قائدین سے حلف لیا جا رہا تھا۔

جاوید چوہدری سوال کرتے ہیں کہ اس ایکسرسائز کا مقصد کیا تھا؟ شاید نواز شریف عوام‘ اتحادیوں‘ پارٹی اور اسٹیبلشمنٹ کو یہ پیغام دینا چاہتے تھے طاقت کا اصل سرچشمہ میں ہوں‘ حکومت‘ اتحاد اور پارلیمنٹ کا فیصلہ پی ڈی ایم یا شہباز شریف نے نہیں کرنا میں نے کرنا ہے اور قائد کی اسی سیاسی لذت میں معیشت کا رہا سہا بھرم بھی ختم ہو گیا۔ سوال یہ ہے یہ کام جب الطاف حسین کرتے تھے تو ن لیگ ایم کیو ایم کا مذاق اڑاتی تھی اور آج اگر یہ لوگ اس ملک کو ایسٹ انڈیا کمپنی بنا رہے ہیں۔ قائد لندن میں بیٹھ کر ریموٹ کنٹرول سے حکومت چلانا چاہتے ہیں تو کیا ن لیگ کو اس عظیم کارنامے پر مبارک باد پیش کرنی چاہیے؟ ملک میں اس وقت عملاً دو وزیر اعظم‘ دو وزیرخزانہ، دو وزراء اعلیٰ اور دو صدور ہیں‘ شہباز شریف وزیراعظم ہیں لیکن پٹرول کی قیمتیں نہ بڑھانے سے لے کر وزارتیں دینے اور واپس لینے تک کے فیصلے نوازشریف لندن سے کر رہے ہیں۔ مفتاح اسماعیل وزیرخزانہ ہیں لیکن فیصلہ سازی اسحاق ڈار کے ہاتھ میں ہے۔ حمزہ شہباز 12 کروڑ لوگوں کے وزیراعلیٰ ہیں لیکن پی کے ایل آئی اور مری کے حالات سے لے کر افسروں کے تبادلے تک تمام فیصلے شہباز شریف کر رہے ہیں اور عارف علوی صدر ہیں لیکن صدارتی اختیارات عمران استعمال کر رہے ہیں۔ اس صورت حال میں صرف دو عہدے بچے ہیں ۔۔۔ آرمی چیف اور چیف جسٹس۔ اگر خدانخواستہ یہ بھی اسی صورت حال کا شکار ہو گئے تو ملک کا کیا بنے گا؟۔

جاوید چوہدری کا کہنا ہے کہ میرے خیال میں یہ حکومت زیادہ عرصہ نہیں چل سکے گی اور کسی بھی وقت ختم ہو جائے گی؟ ایسا ہونے کے چھ اشارے ہیں۔ پہلا اشارہ ‘یہ سسٹم اگر چل سکتا تو نواز شریف اور اسحاق ڈار واپس آ چکے ہوتے‘ وہ اگر واپس نہیں آ رہے تو اس کا مطلب ہے ن لیگ نے اسمبلیاں توڑنے اور نئے الیکشن میں جانے کا فیصلہ کر لیا ہے۔
دوسرا اشارہ ‘پنجاب میں حکومت بنے 17 دن ہو چکے ہیں لیکن سب سے بڑا صوبہ ابھی تک کابینہ کے بغیر چل رہا ہے‘ یہ حقیقت بھی بول رہی ہے صوبائی کابینہ کے معاملے پر ڈیڈ لاک موجود ہے اور یہ ڈیڈ لاک حکومت کو جلد فارغ کر دے گا‘ تیسرا اشارہ ‘عمران خان اپنی تقریروں سے ملک کو تنور میں جھونک رہے ہیں‘ ہم سب تیزی سے سیاسی تصادم کی طرف بڑھ رہے ہیں لیکن کوئی عمران کو روک نہیں رہا‘ کیوں؟ کیوں کہ حکومت اسٹیبلشمنٹ کی طرف دیکھ رہی ہے اور اسٹیبلشمنٹ حکومت کی طرف مگر کوئی بھی یہ ڈھول اپنے گلے میں باندھنے کے لیے تیار نہیں‘ میاں نواز شریف نے عمران کی ذمے داری اپنے سر لینے سے انکار کر دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے یہ جن کی تخلیق ہے وہ جانے اور یہ جانے‘ ’’ریچھ جانے اور قلندر جانے‘‘ ہمیں اس سے الجھنے کی کیا ضرورت ہے لہٰذا اگر حکومت کا چلنے کا ارادہ ہوتا تو پی ٹی آئی کے لیے اکیلا رانا ثناء اللہ ہی کافی تھا مگر یہ لوگ گالیاں کھا کر بھی خاموش بیٹھے ہیں‘ کیوں؟ کیوں کہ یہ اس کارخیر کے لیے فوجی اسٹیبلشمنٹ کی طرف دیکھ رہے ہیں اور اسٹیبلشمنٹ کا خیال ہے حکومت یہ ہیں لہٰذا عمران ان کی ذمے داری ہیں‘ حکومت کو چلانا ہماری ڈیوٹی نہیں۔ چوتھا اشارہ‘ یہ تاثر ن لیگ کے اندر بڑی تیزی سے بڑھ رہا ہے کہ ’’ہمارے ساتھ ہاتھ ہو گیا ہے، ہم سازش کا شکار ہو گئے ہیں‘‘ یہ لوگ اب کھلے عام کہہ رہے ہیں ہم پر پہلے کیس بنا کر ہمیں بدنام کیا گیا اور اب ہماری سیاسی ساکھ کا جنازہ بھی نکال دیا گیا‘ عمران خان حکومت جب مکمل طور پر ناکام ہو گئی تو اسے نکال کر ہیرو بنا دیا گیا اور پھر ہمارا سر چٹان کے نیچے دے دیا گیا‘ یہ لوگ ان تین ٹیلی ویژن چینلز کا نام بھی لیتے ہیں جو دن رات عمران کو کوریج دے رہے ہیں‘ ان کا کہنا ہے یہ چینل ریاست کے زیر اثر ہیں۔

بقول جاوید چوہدری، سوال یہ یے کہ ریاست انھیں کیوں نہیں روک رہی؟ یہ پی ٹی آئی کے ان ایم این ایز کا حوالہ بھی دیتے ہیں جو ریاست کے امیدوار ہیں‘ یہ لوگ آج بھی پی ٹی آئی میں کیوں ہیں اور یہ عمران خان کے ایجنڈے کا جھنڈا اٹھا کر کیوں پھر رہے ہیں؟ کیا اس کا مطلب یہ نہیں عمران کو ہیرو بنایا جا رہا ہے اور انکی مخالف دس سیاسی جماعتوں کی قبر کھودی جا رہی ہے۔ پانچواں اشارہ یہ یے کہ پاکستان روزانہ چار لاکھ 32 ہزار بیرل پٹرول خرچ کرتا ہے۔ ہم ملک میں صرف 70 ہزار بیرل پٹرول پیدا کرتے ہیں لہٰذا ہمیں روزانہ 3 لاکھ 62 ہزار 985 بیرل پٹرول امپورٹ کرنا پڑتا ہے‘ اس کی ویلیو روزانہ 39 ملین ڈالر بنتی ہے‘ ہم اگر 39 ملین ڈالر کو 30 سے ضرب دیں تو یہ ایک ارب 17 کروڑ ڈالر بنتے ہیں جب کہ گیس اور باقی امپورٹس اس کے علاوہ ہیں اور دوسری طرف ہمارے پاس ڈالر تقریباً ختم ہو چکے ہیں اور دوست ممالک اور آئی ایم ایف ہمیں امداد دینے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ چناں چہ ہم اگر فوری فیصلے نہیں کرتے تو ہم ڈیڑھ ماہ بعد پٹرول امپورٹ نہیں کر سکیں گے اور یوں بجلی بھی بند ہو جائے گی۔ ٹرانسپورٹ بھی رک جائے گی، گاڑیاں بھی نہیں چلیں گی اور فلائیٹس بھی معطل ہو جائیں گی۔ لہذا ہمارے پاس بچنے کا ایک ہی حل ہے کہ ہم پٹرول کی قیمتیں بڑھائیں اور آئی ایم ایف سے مذاکرات کریں لیکن ن لیگ اس غیر مقبول فیصلے کا بوجھ اٹھانے کے لیے تیار نہیں۔ وہ چاہتی ہے کہ یہ فیصلے تمام اتحادی مل کر کریں‘ اکٹھی پریس کانفرنس میں کریں۔ بقول جاوید چوہدری حکومت کے خاتمے کا چھٹا اور آخری اشارہ یہ یے کہ شہباز کے اتحادی وزارتوں کو انجوائے کر رہے ہیں لیکن یہ حکومت کو ڈیفنڈ کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ ن لیگ خود کو بھوکے شیروں کے درمیان اکیلا محسوس کر رہی ہے لہٰذا نواز شریف نے حکومت کے خاتمے اور نئے الیکشن کی طرف جانے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ میرا ذاتی خیال ہے یہ سسٹم ایک دو ہفتوں سے زیادہ نہیں چل سکے گا‘ یہ لوگ عبوری حکومت بنا کر مشکل فیصلے اس کے کندھوں پر ڈال دیں گے اور اگر اسٹیبلشمنٹ یہ حکومت رکھنا چاہتی ہے تو پھر اسے کھل کر حکومت کا ساتھ دینا ہوگا‘ عمران کی ذمے داری بھی اپنے کندھوں پر اٹھانا ہو گی اور اتحادیوں کو وزیراعظم کے ساتھ بٹھا کر کڑوے فیصلوں کے کڑوے گھونٹ بھی بھرنا ہوں گے ورنہ یہ حکومت گئی اور اس کے بعد ہم سری لنکا ہوں گے۔

Related Articles

Back to top button