الیکشن کمیشن عمران کے فارن فنڈنگ کیس کا فیصلہ کیوں نہیں کرتا؟


گزشتہ کئی برسوں سے التوء کی شکار تحریک انصاف کے فارن فنڈنگ کے حوالے سے الیکشن کمیشن میں جاری تحقیقات ایک بار پھر سرد خانے کی نذر ہو گئی ہیں اور حکومتی جماعت پی ٹی آئی کے اکاؤنٹس کا آڈٹ کرنے والی الیکشن کمیشن کی اسکروٹنی کمیٹی کا اجلاس غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کردیا گیا ہے۔ جس کے بعد مستقبل قریب میں فارن فنڈنگ کیس کا فیصلہ آنے کےحوالے سے تمام امیدیں دم توڑ گئی ہیں۔
ذرائع کے مطابق ای سی پی کی اسکروٹنی کمیٹی جسے تحریک انصاف کے اکاؤنٹس کا ’جلد از جلد‘ نیا آڈٹ کرنے کا ٹاسک دیا گیا تھا اس نے اجلاس کو غیرمعینہ مدت کے لیے ملتوی کردیا ہے۔ تاہم دوسری طرف ایک الیکشن کمیشن عہدیدار کا کہنا ہے کہ اجلاس کو ای سی پی کے گزشتہ ہفتے جاری ہونے والے اس سرکلر کی تعمیل میں ملتوی کیا گیا، جس میں ملک بھر میں کورونا وائرس کے بڑھتے کیسز کو دیکھتے ہوئے لوگوں کا تحفظ یقینی بنانے کا کہا گیا تھا۔
واضح رہے کہ ای سی پی ڈائریکٹر جنرل برائے قانون کی سربراہی میں مارچ 2018 میں ایک کمیٹی قائم کی گئی تھی تاکہ ایک ماہ میں پی ٹی آئی کے اکاؤنٹس کا آڈٹ مکمل کیا جائے۔بعد ازاں اس کی مدت میں توسیع کی گئی تھی اور رواں سال 2 جون کو ای سی پی نے کمیٹی کو اپنی رپورٹ جمع کروانے کے لیے 17 اگست کی حتمی ڈیڈلائن دی تھی۔اسی طرح کمیٹی نے 13 اگست کو جانچ پڑتال مکمل کرکے کمیشن کو رپورٹ جمع کروائی تھی، جسے ’نہ مکمل نہ تفصیلی‘ ہونے کی وجہ سے مسترد کردیا گیا تھا۔ای سی پی نے اپنے 27 اگست کے حکم میں کہا تھا کہ ‘اسکروٹنی کمیٹی نے دونوں جماعتوں کے فراہم کردہ اور اسٹیٹ بینک سے حاصل کردہ دستاویزات کی بنیاد پر نہ تو ریکارڈ کی جانچ پڑتال کی نہ ہی دستاویزات سے شواہد کا جائزہ لیا اور ٹھوس رائے قائم کرنے میں ناکام رہی‘۔کمیٹی کی سرزنش کرتے ہوئے ای سی پی نے کہا تھا کہ کمیٹی کا یہ فرض اور ذمہ داری تھی کہ اس کے پاس دونوں جماعتوں کے جمع کروائی گئی ہر دستاویز کی صداقت، حقیقت اور ساکھ کی جانچ پڑتال کرے۔ساتھ ہی یہ بھی کہا گیا تھا کہ کمیٹی کے پاس دستاویز کی تصدیق اور دیگر چیزوں کے لیے مناسب فورم، ذرائع اور افراد سے رابطہ کرنے کا اختیار تھا۔ای سی پی نے کہا تھا کہ اعترافی طور پر قانون دستاویزات کی جانچ پڑتال کے لیے صداقت اور ساکھ کا معیار فراہم کرتا ہے لیکن کمیٹی نے اس سلسلے میں مناسب طریقہ کار کو اختیار نہیں کیا۔الیکشن کمیشن نے اپنے حکم نامے میں یہ بھی کہا تھا کہ اسکروٹنی کمیٹی کی رپورٹ میں کوئی حتمی نتیجہ اخذ نہیں کیا گیا۔
ای سی پی کا کہنا تھا کہ ‘یہ کہنا تکلیف دہ ہے کہ 28 سے 29 ماہ گزر جانے کے باجود ہدایات پر سختی سے عمل نہیں کیا گیا’۔ساتھ ہی کمیشن نے کمیٹی کو تازہ جانچ پڑتال کرنے اور اسے جتنی جلد ممکن ہو جمع کروانے کا حکم دیا تھا لیکن کہا تھا کہ اس میں 6 ہفتوں سے زائد کا وقت نہ لگے۔تاہم کمیٹی نے ای سی پی کی جانب سے مقرر کردہ ایک اور ڈیڈلائن کو پورا نہیں کیا اور اس کے بعد معمولی سی پیش رفت کی گئی۔
کمیٹی کا آخری اجلاس 21 اکتوبر کو ہوا تھا اور اس کے بعد یہ 26 نومبر کو ہونا تھا لیکن ایس پی پی کے ڈائریکٹر جنرل (قانون) جو کمیٹی کے سربراہ بھی ہیں ان کے بھائی کے انتقال کی وجہ سے اسے ملتوی کردیا گیا تھا۔ بعد ازاں 9 دسمبر اس اجلاس کے لیے نئی تاریخ تھی لیکن اسے بھی کووڈ 19 کو بنیاد بنا کر اجلاس غیر معینہ مدت کیلئے ملتوی کردیا گیا ہے۔ جس سے مستقبل قریب میں تحریک انصاف فارن فنڈنگ کیس کے حوالے سے کوئی فیصلہ آنے کی امیدیں دم توڑ گئی ہیں
خیال رہے کہ برسر اقتدار تحریک انصاف کے خلاف الیکشن کمیشن میں نومبر 2014 سے زیر التوا فارن فنڈنگ کیس شیطان کی آنت کی طرح لمبا ہوتا چلا جا رہا ہے اور چھ برس گزرنے کے بعد بھی وزیراعظم عمران خان اور انکی جماعت کیخلاف کسی قسم کی قانونی کارروائی نہیں ہوئی۔ واضح رہے کہ تحریک انصاف کے سابق بانی رکن اکبر ایس بابر کی جانب سے فارن فنڈنگ کیس میں تحریک انصاف پر الزام لگایا گیا تھا کہ جماعت کی جانب سے غیر قانونی غیر ملکی فنڈز میں تقریباً 30 لاکھ ڈالر 2 آف شور کمپنیوں کے ذریعے اکٹھے کیے گئے اور یہ رقم غیر قانونی طریقے ‘ہنڈی’ کے ذریعے مشرق وسطیٰ سے پی ٹی آئی ملازمین کے اکاؤنٹس میں بھیجی گئی۔ ان کا یہ بھی الزام تھا کہ جو فنڈز بیرونِ ملک موجود اکاؤنٹس حاصل کرتے تھے، اسے الیکشن کمیشن میں جمع کروائی گئی سالانہ آڈٹ رپورٹ میں پوشیدہ رکھا گیا۔ بعد ازاں ایک سال سے زائد عرصے تک اس کیس کی سماعت ای سی پی میں تاخیر کا شکار رہی تھی کیونکہ پی ٹی آئی کی جانب سے اکتوبر 2015 میں اسلام آباد ہائی کورٹ میں ایک درخواست دائر کی گئی کہ اس کے اکاؤنٹس کی جانچ پڑتال سے ای سی پی کو روکا جائے۔ جس کے بعد فروری 2017 میں اسلام آباد ہائی کورٹ نے دائرہ اختیار پر جائزہ لینے کے لیے کیس کو دوبارہ ای سی پی کو بھیج دیا تھا، اسی سال 8 مئی کو ای سی پی کے فل بینچ نے اس کیس پر اپنے مکمل اختیار کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ پی ٹی آئی اس طرح کے ثبوت پیش کرنے میں ناکام رہی کہ درخواست گزار کو پارٹی سے نکال دیا گیا اور وہ پی ٹی آئی اکاؤنٹس پر سوالات اٹھانے کا حق کھو بیٹھے۔ علاوہ ازیں مارچ 2018 میں پی ٹی آئی کے فارن فنڈنگ اکاؤنٹس کے معاملات کو دیکھنے کے لیے ایک سکروٹنی کمیٹی قائم کی گئی تھی جو اب تک فارن فنڈنگ کی تحقیقات کررہی تھی اور گزشتہ ماہ ہی الیکشن کمیشن میں اپنی رپورٹ جمع کروائی جسے ای سی پی نے مسترد کرکے تازہ رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت کی۔
فارن فنڈنگ کیس کے حوالے سے قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان پولیٹیکل پارٹیز ایکٹ 2002 کے مطابق شق 15 کا استعمال کرتے تحریک انصاف کو بطور جماعت کالعدم قرار دے سکتا ہے۔ اس کے علاوہ آرٹیکل 61 اور 62 بھی استعمال کیا جاسکتا ہے۔ تحریک انصاف اگر اس کیس میں خود کو کلیئر نہ کروا سکی تو نہ صرف بطور جماعت اس کا وجود ختم ہو جائے گا بلکہ اس جماعت سے تعلق رکھنے والے اراکین صوبائی، قومی اور سینیٹ بھی اپنے عہدوں سے فارغ ہوجائیں گے اور یوں تحریک انصاف کی حکومت کا خاتمہ ہوجائے گا۔
واضح رہے کہ سیاسی جماعتوں کو پولیٹیکل پارٹیز آرڈر 2002 کے آرٹیکل 13 کے تحت مالی سال کے اختتام سے 60 روز کے اندر الیکشن کمیشن میں بینک اکاؤنٹس کی آڈٹ رپورٹ جمع کروانا ہوتی ہے جس میں سالانہ آمدن اور اخراجات، حاصل ہونے والے فنڈز کے ذرائع، اثاثے اور واجبات شامل ہوتے ہیں۔اس کے علاوہ پارٹی کا سربراہ الیکشن کمیشن میں ایک سرٹیفکیٹ بھی جمع کروانے کا مجاز ہوتا ہے جس میں یہ اقرار کیا جاتا ہے کہ تمام مالی تفصیلات درست فراہم کی گئی ہیں اور کوئی بھی فنڈ کسی ممنوعہ ذرائع سے حاصل شدہ نہیں ہے۔ واضح رہے کہ تحریک انصاف کی جانب سے جو سرٹیفکیٹ جمع کروایا گیا اس میں اس بات کو چھپایا گیا ہے تحریک انصاف کو کس کس ذرائع سے پارٹی فنڈز ملے گی۔ پارٹی کے فنڈز کے ذرائع ظاہر نہ کرنے پر آرٹیکل 61 اور 62 کوئی بھی اتھارٹی استعمال کر سکتی ہے چاہے وہ الیکشن کمیشن ہو یا سپریم کورٹ۔۔۔۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button