علی ظفر کی شکایت پر دائر مقدمے میں عفت عمر کی عبوری ضمانت منظور

لاہور کی سیشن کورٹ نے گلوکار و اداکار علی ظفر کے خلاف سوشل میڈیا پر چلنے والی مذموم مہم میں مبینہ طور پر ملوث ہونے پر دائر کیے گئے مقدمے میں اداکارہ عفت عمر کی ضمانت منظور کرلی۔
وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کے سائبر کرائم ونگ نے 28 ستمبر کو علی ظفر کے خلاف مذموم مہم میں مبینہ طور پر ملوث ہونے پر گلوکارہ میشا شفیع اور دیگر 8 افراد کے خلاف مقدمہ درج کیا تھا۔ پریوینشن آف الیکٹرانک کرائمز ایکٹ (پیکا) 2016 کے سیکشن (1) 20 اور پاکستان پینل کوڈ کے آر/ڈبلیو 109 کے تحت میشا شفیع، اداکارہ و میزبان عفت عمر، لینیٰ غنی، فریحہ ایوب، ماہم جاوید، علی گل، حزیم الزمان خان، حمنہ رضا اور سید فیضان رضا کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا۔ ایڈیشنل سیشن جج حامد حسین نے 50 ہزار روپے کے مچلکوں کے عوض اداکارہ عفت عمر کی درخواست ضمانت منظور کی۔ اس کے ساتھ ہی لاہور کی سیشن کورٹ نے 12 اکتوبر تک ایف آئی اے کو عفت عمر کی گرفتاری سے روک دیا۔ عدالت نے آئندہ سماعت پر وفاقی تحقیقاتی ادارے سے اداکارہ کے خلاف دائر کردہ مقدمے کا مکمل ریکارڈ بھی طلب کرلیا۔
خیال رہے کہ نومبر 2018 میں علی ظفر نے ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ میں شکایت درج کروائی تھی جس میں انہوں نے الزام لگایا تھا کہ کئی سوشل میڈیا اکاؤنٹس ان کے خلاف ‘توہین آمیز اور دھمکی آمیز مواد’ پوسٹ کررہے ہیں۔
انہوں نے اپنے دعوے کی حمایت میں ٹوئٹر اور فیس بک اکاؤنٹس کی تفصیلات بھی فراہم کی تھیں۔علی ظفر نے الزام لگایا تھا کہ اپریل 2018 میں میشا شفیع کی جانب سے جنسی ہراسانی کے الزام سے ہفتوں قبل کئی جعلی اکاؤنٹس نے گلوکار کے خلاف مذموم مہم کا آغاز کیا تھا۔گلوکار و اداکار نے کہا تھا کہ ان میں سے اکثر جعلی اکاؤنٹس مبینہ طور پر میشا شفیع سے منسلک تھے۔انہوں نے دستاویزی ‘شواہد’ کے ساتھ ایف آئی اے کو بتایا تھا کہ’ نیہا سہگل (nehasaigol1@) کے نام سے ایک ٹوئٹر اکاؤنٹ نے ایک سال میں مجھ سمیت میرے اہل خانہ کے خلاف 3 ہزار توہین آمیز ٹوئٹس کیے جبکہ یہ اکاؤنٹ میشا شفیع کے جنسی ہراسانی کے الزامات سے 50 روز قبل بنایا گیا تھا’۔دسمبر 2019 میں میشا شفیع اپنے وکلا کی ٹیم کے ساتھ ایف آئی میں پیش ہوئی تھیں۔ایف آئی آر میں کہا گیا کہ میشا شفیع علی ظفر کے خلاف اپنے (جنسی ہراسانی کے) الزام کی حمایت میں کوئی گواہ پیش کرنے میں ناکام ہوگئی تھیں۔ایف آئی آر کے مطابق لینیٰ غنی کو بھی طلب کیا گیا تھا لیکن وہ پیش نہیں ہوئی اور تحریری جواب ارسال کیا تھا جس پر عدم اطمینان کا اظہار کیا گیا تھا۔ مزید کہا گیا تھا کہ لینیٰ غنی 19 اپریل 2018 کو شکایت کنندہ کے خلاف ٹوئٹر پر توہین آمیز مواد پوسٹ کرنے میں ملوث تھیں۔ ایف آئی آر کے مطابق فریحہ ایوب اور ماہم جاوید کو بھی چار مرتبہ طلب کیا گیا تھا لیکن وہ انکوائری میں شامل نہیں ہوئیں۔
اداکارہ و میزبان عفت عمر ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ میں پیش ہوئی تھیں لیکن انہوں نے اپنا بیان ریکارڈ نہیں کروایا تھا اور وقت دینے کی درخواست کی تھی لیکن متعدد درخواستوں کے باوجود انہوں نے اپنا بیان ریکارڈ نہیں کروایا۔ ایف آئی آر کے مطابق علی گل نے بھی علی ظفر کے خلاف توہین آمیز بیانات پوسٹ کیے تھے۔ انہیں 3 مرتبہ طلب کیا گیا تھا لیکن وہ دانستہ طور پر پیش نہیں ہوئے اور ایف آئی اے کراچی میں اپنا بیان جمع کرایا تھا۔ ایف آئی آر کے مطابق علی گل کا بیان اطمینان بخش نہیں تھا اور انکوائری کے میرٹ پر پورا نہیں اترتا تھا۔
اسی طرح حمنہ رضا نے بھی اپنا بیان جمع کروایا تھا جو ‘عدم اطمینان بخش’ تھا، ایف آئی آر کے مطابق حسیم الزمان کو بھی 4 مرتبہ طلب کیا تھا لیکن وہ بھی تحقیقات میں شامل نہیں ہوئے۔ ایف آئی آر کے مطابق سید فیضان رضا نے اپنا بیان ریکارڈ کروایا تھا، جس میں انہوں نے کہا تھا کہ ٹوئٹس کے ذریعے علی ظفر پر لگائے گئے الزامات ‘عوامی رائے پر مبنی’ تھے۔ تاہم ان کے بیان پر عدم اطمینان کا اظہار کیا گیا تھا۔
خیال رہے کہ علی ظفر کے خلاف متعدد افراد اور خاص طور پر خواتین نے اپریل 2018 کے بعد اس وقت سوشل میڈیا پر الزامات لگانا شروع کیے تھے جب میشا شفیع نے ان پر ٹوئٹ پوسٹ کے ذریعے جنسی ہراسانی کے الزامات لگائے تھے۔
علی ظفر نے میشا شفیع کے الزامات کو مسترد کیا تھا اور بعد ازاں انہوں نے گلوکارہ کے خلاف جھوٹے الزامات لگانے پر لاہور کی سیشن کورٹ میں ایک ارب روپے کے ہرجانے کا دعویٰ دائر کیا تھا جس پر درجنوں سماعتیں ہو چکی ہیں۔ سیشن کورٹ میں علی ظفر اور ان کے 11 گواہوں کے بیانات مکمل ہوچکے ہیں اور اب میشا شفیع کے گواہوں کے بیانات قلم بند ہوں گے، اسی کیس میں میشا شفیع اور ان کی والدہ اداکارہ صبا حمید بھی اپنا بیان ریکارڈ کروا چکی ہیں۔ اسی عدالت میں میشا شفیع نے بھی علی ظفر کے خلاف 2 ارب روپے ہرجانے کا دعویٰ دائر کر رکھا ہے جس پر عدالت نے سماعت روک رکھی ہے اور حکم دیا ہوا ہے کہ پہلے علی ظفر کے ہرجانے کے کیس کا فیصلہ ہوگا۔
واضح رہے کہ علی ظفر پر ہراسانی کے الزامات لگانے والی خواتین میں سے 2 معافی بھی مانگ چکی ہیں جن میں صوفی نامی ٹوئٹر صارف اور خاتون بلاگر و سوشل میڈیا ایکٹیوسٹ مہوش اعجاز شامل ہیں۔ ایف آئی آر کے مطابق مشتبہ ملزمان کو ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ کی جانب سے متعدد مرتبہ اپنے دفاع کےلیے طلب کیا گیا تھا تاہم پیش نہ ہونے کے باعث ان کے خلاف کارروائی کا آغاز کیا گیا۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button