روس اور یوکرین کی جنگ پاکستانیوں کو کتنی مہنگی پڑے گی؟

روس کی یوکرین کے خلاف جنگی جارحیت کے نتیجے میں دنیا بھر میں پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ ہوچکا ہے اور معاشی ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ حکومتی نااہلی کے باعث مہنگائی کے ستائے پاکستانی عوام کو بھی اس جنگ کی بھاری قیمت چکانا پڑے گی۔ مہنگائی کے موجودہ طوفان کے دوران مستقبل قریب میں تیل اور گیس کی قیمتوں میں اضافے کے علاوہ غذائی اجناس بھی مذید مہنگی ہونے کا خدشہ ہے۔

معاشی ماہرین کا کہنا ہے کہ روس اور یوکرائن کی جنگ کا پاکستان پر فوری اثر تو نہیں ہو گا تاہم اگر یہ جنگ طول پکڑ گئی تو پاکستان کو بھی مہنگائی اور ایندھن کی قلت کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ اقتصادی تجزیہ کاروں کے مطابق روس اور یوکرائن کی جنگ سے پاکستان پر تین طرح کے اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔ اقتصادی طور پر دیکھیں تو جنگ زدہ یوکرائن کے لیے پاکستانی برآمدات چونکہ بہت ہی کم ہیں، اس لیے ان پر کوئی خاص اثر نہیں پڑے گا۔ لیکن روس اور یوکرائن دنیا میں گندم اور کئی دیگر زرعی اجناس پیدا کرنے والے اہم ممالک ہیں۔

پاکستان یوکرائن سے گندم درآمد کرتا ہے، اس لیے جنگ کے نتیجے میں پاکستانی درآمدات متاثر ہو سکتی ہیں۔ جنگ کی وجہ سے عالمی طور پر زرعی اجناس، تیل ، کوئلے اور گیس کی قیمتوں میں اضافہ ہونا شروع ہو گیا ہے، اور پاکستان بھی اس کے اثرات سے بچ نہیں سکتا کیونکہ یہ مائع قدرتی گیس، کوئلہ اور تیل درآمد کرتا ہے۔ اسی لیے پاکستان کو مہنگائی کی ایک نئی لہر کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

معاشی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ گلوبل سپلائی چین متاثر ہونے سے پاکستانی برآمد کنندگان کی مشکلات بھی بڑھ سکتی ہیں اور انہیں بحری مال برداری کی لاگت میں اضافے کا سامنا بھی ہو سکتا ہے۔ اس کے علاوہ ممکن ہے کہ پاکستان میں روس کی مدد سے شروع کردہ گیس پائپ لائن سمیت مختلف منصوبوں پر پیش رفت کی رفتار بھی متاثر ہو۔ اسکے علاوہ پاکستان اپنے خارجہ پالیسی امکانات کو بڑھانے اور برآمدات کو عالمی منڈیوں تک پھیلانے کے لیے جو تگ و دو کر رہا تھا، روس یوکرین جنگ سے کی وہ تگ و دو بھی منفی طور پر متاثر ہو گی۔

روس اور یوکرین کے درمیان مذاکرات شروع

اقتصادی تجزیہ نگار منصور احمد کہتے ہیں کہ پاکستانی وزیر اعظم عمران خان کے حالیہ دورہ روس سے مغرب کو بہت غلط پیغام ملا ہے اور اگر یہ جنگ طول پکڑتی ہے اور پاکستان کوئی واضح پوزیشن نہیں لیتا، تو پھر امریکا اور یورپ کی طرف سے ایسا طرز عمل سامنے آ سکتا ہے، جس کے نتیجے میں آئی ایم ایف سے لے کر برآمدی رعایتوں تک اسلام آباد کو کئی معاملات میں نئی مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

تاہم دوسری جانب وزیر اعظم کے مشیر برائے تجارت و سرمایہ کاری عبدالرزاق داؤد کا دعویٰ ہے کہ روس اور یوکرائن کے مابین عسکری کشیدگی کے دوران عمران خان کا ماسکو کا دورہ امریکا اور روس کے لیے پاکستانی برآمدات کو متاثر نہیں کرے گا۔

یوکرائن میں پاکستان کے سابق سفیر اطہر عباس نے بتایا کہ پاکستان اور یوکرائن کے مابین تجارت کا حجم بہت کم ہے۔ پاکستان سے وہاں چاول، سبزیاں اور فروٹ جاتے ہیں جبکہ پاکستان وہاں سے دفاعی ساز و سامان اور گندم منگواتا ہے۔ ان کے خیال میں اگر جنگ طویل ہو گئی، تو پاکستان میں یوکرائن سے درآمدات متاثر ہو سکتی ہیں۔ اس کے علاوہ ملک میں تیل کی قلت اور مزید مہنگائی بھی ہو سکتی ہے۔

سابق وزیر خارجہ خورشید محمود قصوری کا کہنا ہے کہ اس جنگ کی وجہ سے زرعی اجناس اور توانائی کی قیمتیں بڑھنے سے افریقی ممالک اور پاکستان کے ساتھ ساتھ بھارت اور بنگلہ دیش سمیت ان تمام ممالک کی مشکلات میں اضافہ ہو سکتا ہے، جو اپنے ہاں مالی ادائیگیوں کے توازن کو بہتر بنانے کی تگ و دو میں مصروف ہیں۔ معروف تجزیہ کار ڈاکٹر حسن عسکری کے مطابق روسی یوکرائنی جنگ کے پاکستان پر فوری اثرات کو کوئی امکان نہیں لیکن اگر یہ عسکری تنازعہ طول پکڑ گیا، تو پھر دیگر ممالک کی طرح پاکستان میں بھی افراط زر میں اضافہ ہو گا جس کے نتائج مہنگائی کے مارے پاکستانی عوام کو بھگتنا پڑیں گے۔

Related Articles

Back to top button