9 مئی کے مجرم کسی اور ملک ہوتے تو فائرنگ سکواڈ کا سامنا کرتے

9 مئی 2023 کو عمران خان کے ایما پر فوجی تنصیبات پر حملوں کا بنیادی مقصد فوج میں بغاوت کے ذریعے آرمی چیف کو فارغ کرنا تھا۔ پاکستان کی خوش قسمتی تھی کہ بغاوت کی یہ سازش ناکام رہی۔ اگر یہ واقعہ دنیا کے کسی اور میں ملک میں پیش آیا ہوتا تو ناکام باغیوں کو فائرنگ سکواڈ کے سامنے کھڑا کر کے گولیوں سے بھون دیا جاتا تا کہ آئندہ کوئی شخص ایسا سوچنے کی جرات بھی نہ کرتا۔

سینیئر صحافی اور تجزیہ کار حماد نظر غزنوی روزنامہ جنگ میں اپنے تازہ سیاسی تجزیے میں ان خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ہزاروں فلسطینیوں کو قتل کر کے سفاکیت اور خوں خواری کی نئی تاریخ رقم کرنے والے اسرائیل کی غیر مشروط حمایت حاصل کرنے والے امریکا نے یورپی یونین اور برطانیہ کے ساتھ ہم آواز ہو کر پاکستان میں انسانی حقوق کی صورتِ حال پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ اللہ ہی اللہ۔ بلاشبہ، یہ ’’تشویش‘‘ مضحکہ خیزی کے نادر ترین نمونوں میں شمولیت کی حق دار ٹھہرے گی۔

اس سے پہلے 8 مئی 2023 کو ملک بھر میں فوجی تنصیبات پر حملوں میں شامل 25 پی ٹی آئی ورکرز کو پاکستانی ملٹری کورٹس نے سزائیں سنائیں تو امریکا، یورپی یونین اور برطانیہ نے ناک بھوں چڑھاتے ہوئے فوجی عدالتوں کو انصاف کے اصولوں اور انسانی حقوق کے تقاضوں کی نفی قرار دے دیا۔ لیکن کڑوا سچ تو یہ ہے کہ فوجی عدالتیں تو چھوڑئیے، امریکا اور مغربی ممالک تو دنیا بھر میں مارشل لاز کی حمایت بھی کرتے ہیں، بادشاہتوں کو قائم رکھنے میں دل و جان سے مدد بھی فراہم کرتے ہیں، اور آمریتوں کے صدقے واری بھی جاتے ہیں، پھر پاکستان کے معاملے میں یہ انسانی حقوق اور انصاف کے تقاضے کہاں سے ٹپک پڑتے ہیں؟

حماد غزنوی کے بقول ایک سیدھا مسئلہ تو یہ ہے کہ آج کل پاکستان سامراج کے لیے کسی پراکسی جنگ میں شامل نہیں ہے، اور ماضی گواہ ہے کہ جب جب خطے میں جنگ رکتی ہے، پاکستان قابلِ استعمال نہیں رہتا تو امریکا کو کئی ’’اصولی موقف‘‘ یاد سے آ کے رہ جاتے ہیں۔ حال ہی میں امریکا نے پاکستان کی کچھ نجی کمپنیوں پر اس الزام کے تحت پابندی لگا دی کہ یہ ادارے دورمار میزائلوں کی تیاری میں شامل ہیں جو امریکہ کو بھی نشانہ بنا سکتے ہیں۔ قرائن بتاتے ہیں کہ پاکستان کا بازو مروڑنے کی تیاریاں کی جا رہی ہیں، اور ایسے ہی موقعوں کیلئے امریکا نے کچھ خصوصی چابک رکھے ہوئے ہیں جن میں پاکستان کی جوہری طاقت سے انسانی حقوق کی صورت حال تک کئی آزمودہ چھانٹے شامل ہیں۔ پاکستان کی طرف اس درشت رویے کو ہم خطے میں چین اور امریکا کے مفادات کے تصادم کے پس منظر میں سمجھنے کی کوشش کر سکتے ہیں، مگر دوسری طرف پی ٹی آئی کے دوستوں کا اصرار ہے کہ امریکا اور یورپ عمران خان کی رہائی چاہتے ہیں، اور اس سلسلے میں آنے والے دنوں میں پاکستان پر دبائو بڑھتا جائے گا، اور ٹرمپ کے قصرِ صدارت میں داخلے کے بعد فائنل رائونڈ شروع ہو جائے گا۔

حماد غزنوی کہتے ہیں کہ ہمیں اس بارے میں کبھی کوئی شبہ نہیں رہا کہ عمران خان کے جاں نثار حامی ایک متوازی کائنات میں رہتے ہیں جس کے ’حقائق‘ ہمارے لئے یک سر اجنبی ہیں۔ جہاں تک فوجی عدالتوں کا معاملہ ہے، ہم اس قول سے متفق ہیں کہ ’’ملٹری کورٹس کا انصاف کی دنیا میں وہی مقام ہے جو ملٹری بینڈ کا موسیقی کی دنیا میں ہے۔‘‘ بہ طور اصول، سویلینز کے کیس فوجی عدالتوں میں نہیں چلنے چاہئیں۔ اب ذرا 9 مئی 2023 کے واقعے پر ایک نظر ڈال لیجیے۔ ادارے کے اندرونی ذرائع مصر ہیں کہ نو مئی فوج کے اندر بغاوت برپا کرنے کا ایک منظم منصوبہ تھا، خیال یہ تھا کہ ’’حقیقی آزادی‘‘ کے لاکھوں متوالے پاکستان کے طول و عرض میں فوجی عمارتوں اور شہداء کی یادگاروں پر حملہ آور ہوں گے، میر جعفر و میر صادق کی ذریت کے خلاف نفرت کا تاریخی مظاہرہ میڈیا کی زینت بنے گا، ملک میں فضا بندی مکمل ہو جائے گی، اور جب لوہا گرم ہو جائے گا تو اندر سے بغاوت کی ضرب لگائی جائے گی، اور سپہ سالار کو اسی طرح گھر جانے پر مجبور کیا جائے گا جیسے یحییٰ خان اینڈ کو نے ایوب خان کو کیا تھا۔ فرض کیا، یہ سچی کہانی ہے تو پھرسوال پیدا ہوتا ہے کہ ان مجرموں کا کیس کس عدالت میں چلنا چاہیے؟ اپنے ملک کی ناقابل رشک جمہوریت اور ہائی برڈ نظام کی ساخت کو مدِ نظر رکھتے ہوئے، یہ کہنا غلط نہیں ہو گا کہ 9 مئی کے ماسٹر مائنڈ اور کارندے خوش قسمت ہیں جو اب تک بچے ہوئے ہیں۔ ہماری ٹوٹی پھوٹی جمہوریت اور عدالتی نظام کو تو چھوڑیے، دنیا کی مضبوط ترین جمہوریتوں میں بھی فوج کے اندر شورش برپا کرنے کی ناکام سازش کرنے والوں کو نشانِ عبرت بنا دیا جاتا ہے، اور بہت سے ملک تو آج بھی ایسے ہیں جہاں ناکام باغیوں کو فائرنگ اسکواڈ کے سامنے کھڑا کر دیا جاتا ہے۔

حماد غزنوی کا کہنا ہے کہ 9 مئی کے حملوں کی تیاری ایک سال تک کھلے بندوں کی گئی تھی، جنرل قمر باجوہ صاحب اپنی نوکری کی توسیع کی بے لگام خواہش میں ایسے مبتلا ہوئے کہ عمران خان کو ایک سال تک اپنے ادارے کے خلاف دشنام طرازی، جانور، غدار، میر جعفر کا بیانیہ بنانے اور نفرت پھیلانے کی کامل آزادی حاصل رہی۔ 9 مئی اس ذہن سازی کا بدیہی نتیجہ تھا۔ پی ٹی آئی ابتدائی دنوں میں 9 مئی کو ’’یومِ فتح مبین‘‘ قرار دیتی رہی، ادارے کا شدید ردِ عمل آنا شروع ہوا تو ’’فالس فلیگ‘‘ کا بیانیہ گھڑا گیا جسے آج بھی بہ طور بیانیہ استعمال کیا جاتا ہے، مگر دوسری طرف پی ٹی آئی کے سوشل میڈیا جنگ جُو فوج کے خلاف نفرت انگیز بیانیہ بنانے کا کوئی موقعہ ضائع نہیں کرتے، عمران خان خود بھی سقوطِ ڈھاکا اور بنگالی حریت پسندوں کے خلاف فوجی کارروائیوں کا تذکرہ کر کے فوج کو طیش دلاتے ہی رہتے ہیں۔ ان حالات میں پی ٹی آئی حکومت مذاکرات کا ڈول ڈالا توگیا ہے مگر ان مذاکرات سے امید یں باندھنا خوش گمانی کی انتہا ہو گی۔ افواج کے خلاف زہر اگل کر، ایک ہائی برڈ حکومت سے شاید ہی کوئی رعایت لی جا سکے۔

Back to top button