قومی اسمبلی میں وزیر خارجہ کا ٹیسٹنگ کی ناکافی سہولیات کا اعتراف

وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے دو ماہ بعد منعقد ہونے والے قومی اسمبلی کے اجلاس میں ملک میں کرونا ٹیسٹنگ کی ناکافی سہولیات کا اعتراف کر لیا ہے. قومی اسمبلی کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے وفاقی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ میں برملا اعتراف کروں گا کہ ٹیسٹ کرنے کی تعداد ناکافی ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں صحت کا نظام 2010 میں صوبوں کو منتقل ہوچکا ہے اور ان ترامیم کے بعد سندھ میں مسلسل پیپلزپارٹی اور پنجاب میں دس برس تک پاکستان مسلم لیگ (ن) نے حکومت کی اور یہ ذمہ داری سنبھال رہے تھے۔
خیال رہے کہ وفاقی حکومت کی جانب سے کورونا وائرس کے باعث بعد بندشوں میں نرمی کے اعلان کے بعد پہلی مرتبہ قومی اسمبلی کا اجلاس ہو رہا ہے جہاں اراکین ٹیسٹ کے بعد شرکت کر رہے ہیں۔
وفاقی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ حکومت نے فیصلہ کیا کہ کورونا وائرس پر یک نکاتی ایجنڈے پر قومی اسمبلی کا فیصلہ کیا اور اپوزیشن کے مطالبے کو تسلیم کیا۔ انہوں نے کہا کہ کورونا وائرس کا چیلنج مشکل ہے اور حقیقت ہے کہ جنگ عظیم سے بھی زیادہ ہلاکتیں ہوئی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اس کا علاج ویکسین کی صورت میں سامنے نہیں آتا اس وقت تک مختلف تجربوں سے اس کو محدود کرنے کی ہم بھی کوشش کررہے ہیں لیکن خیال ظاہر کیا جارہا ہے کہ دو سال لگیں گے۔ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ ہمیں مل بیٹھ کر حل نکالنا ہوگا اور مشترکہ ایجنڈا بنانا ہوگا۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ اس وقت 209 ملک اس وائرس سے متاثر ہوچکے ہیں جبکہ 40 لاکھ افراد متاثرجبکہ 2 لاکھ 80 ہزار 700 افراد وائرس کے باعث ہلاک ہوچکے ہیں۔
پاکستان کی صورت حال پر بات کرنے سے متعلق انہوں نے کہا کہ اس قبل ایک تقابلی جائزہ آپ کے سامنے ہونا چاہیے، امریکا جس کا نظام صحت بہت جدید ہے اس کی صورتحال یہ ہے کہ وہاں 80 ہزار سے زائد اموات ہوچکی ہیں جب کہ برطانیہ میں 31 اور اٹلی میں 30 ہزار سے زائد اموات ہوچکی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اگر اس کا موازنہ پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک سے کریں، جہاں نظام صحت بھی کمزور ہے، تاہم یہاں صورتحال یہ ہے کہ 10 مئی تک 661 اموات ہوئی ہیں اور 29 ہزار سے کچھ زیادہ مثبت کیسز ہیں جب کہ 8 ہزار 23 لوگ اس سے صحت یاب بھی ہوئے ہیں۔ وزیرخاجہ نے کہا کہ پاکستان میں کورونا وائرس کا پہلا کیس 26 فروری کو کراچی میں سامنے آتا ہے، ہم نے یہ دیکھنا ہے کہ جب اس وائرس کا پہلا کیس پاکستان میں آتا ہے تو اس وقت ہماری کیا صورتحال تھی۔
انہوں نے بتایا کہ جب پہلا کیس آیا تو یومیہ 100 ٹیسٹ کرنے کی سہولت تھی لیکن ہم ہماری صلاحیت 20 ہزار کیس روزانہ کرنے تک پہنچ چکی ہے۔ شاہ محمود قریشی نے مطابق جب پہلا کیس آتا ہے تو ہمارے یہاں 8 لیبارٹری کام کر رہی تھی اور اب 70 سے زائد لیبارٹری کام کر رہی ہیں۔ بات کو جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس وقت اگر پاکستان کا موازنہ جنوبی ایشیا کے دیگر ممالک سے کیا جائے تو پاکستان کی ٹیسٹنگ کی صلاحیت اس وقت تک دیگر جنوبی ایشیائی ممالک میں سب سے زیادہ ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ آج ہماری ٹیسٹ کرنے کی صلاحیت 10 ہزار سے زائد ہوگئی ہے، شروع میں 8 لیبارٹریز میں ٹیسٹ ہورہے تھے اور آج 70 کے قریب لیبارٹریاں ہیں جو فعال ہیں۔
شاہ محمود قریشی نے کہا کہ میں برملا اعتراف کروں گا کہ ٹیسٹ کرنے کی تعداد ناکافی ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں صحت کا نظام 2010 میں صوبوں کو منتقل ہوچکا ہے اور ان ترامیم کے بعد سندھ میں مسلسل پیپلزپارٹی اور پنجاب میں دس برس تک پاکستان مسلم لیگ (ن) نے حکومت کی اور یہ ذمہ داری سنبھال رہے تھے۔
وزیرخارجہ کا کہنا تھا کہ پاکستان میں انفیکشن اور اموات کی شرح 2.8 فیصد ہے اور دنیا میں 6.8 فیصد ہے، گوکہ پاکستان میں ابھی عروج آنا ہے لیکن ہم پر اللہ خاص کرم ہے۔اراکین قومی اسمبلی کو داخلے کے لیے سینیٹائزر گیٹ نصب کیے گئے اور ایوان میں فاصلے پر بیٹھنے کے انتظامات کیے جاچکے ہیں۔قومی اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کرنے والے اراکین کو ماسک، دستانے اور سینیٹائزر دے گئے ہیں۔ قومی اسمبلی میں ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری نے انتظامات کا جائزہ لیا اور کہا کہ ارکان کو ایوان کو فاصلے پر بٹھائیں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ قومی اسمبلی کا اجلاس ہوگا جس کےلیے انتظامات کیے گئے ہیں اور لاجز میں بھی کورونا وائرس کے ٹیسٹ کی سہولت فراہم کردی ہے اور قومی اسمبلی میں بھی ٹیسٹ کے لیے عملہ بھیج دیا گیا ہے۔قاسم سوری نے کہا کہ شرکت کرنے والے تمام اراکین کی اسکریننگ کی اور ان کو ماسک، سینیٹائزر فراہم کیے جائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ پارٹی کے رہنما فیصلہ کریں گے کہ اجلاس میں کتنے اراکین شریک ہوں گے۔قبل ازیں وفاقی وزیر فواد چوہدری نے ٹوئٹ میں اسمبلی اجلاس میں شریک نہ ہونے کے فیصلے سے آگاہ کیا تھا۔
فواد چوہدری نے کہا کہ میں پہلے دن سے ویڈیو لنک پر سیشن کا کہہ رہا ہوں، اپوزیشن کے دباؤ میں آ کر پارلیمانی کمیٹی نے غیر دانشمندانہ فیصلہ کیا اور ملکی سیاسی قیادت کو غیر ضروری خطرے میں ڈال دیا۔
خیال رہے کہ اپوزیشن جماعتوں کے مطالبے پر ملک میں کورونا وائرس کی صورتحال سے متعلق بحث کے لیے اجلاس طلب کیا گیا ہے۔
خیال رہے کہ قومی اسمبلی اجلاس میں شرکت سے قبل کورونا ٹیسٹ لازمی قرار دیا گیا تھا جس کے پیش نظر اراکین اسمبلی کے ٹیسٹ کیے گئے تھے اور گزشتہ روز دو اراکین کا ٹیسٹ مثبت آیا تھا۔
کورونا وائرس سے نہ صرف اراکین اسمبلی بلکہ پارلیمنٹ ہاؤس کے ملازمین بھی متاثر ہوچکے ہیں جس میں قومی اسمبلی کے چیمبر اٹینڈنٹ سمیت دیگر شامل ہیں۔
اسلام آباد کے نیشنل انسٹیٹیوٹ آف ہیلتھ کی جانب سے جاری رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پارلیمنٹ ہاؤس کے مزید اٹھ ملازمین کورونا وائرس کا شکار ہو گئے ہیں اور ان ملازمین کا تعلق قومی اسمبلی اور سینیٹ سیکرٹیریٹ سے ہے۔
یاد رہے کہ قومی اسمبلی کے اسپیکر اسد قیصر بھی گزشتہ ماہ کورونا وائرس کا شکار ہوگئے تھے اور ان کے دو بچوں میں بھی کورونا کی موجودگی کی تصدیق کی گئی تھی۔
گزشتہ ماہ کے آخر میں ہی متحدہ مجلس عمل کے رکن قومی اسمبلی منیر خان اورکزئی اور خیبرپختونخوا کے ڈائریکٹر آف پبلک ہیلتھ ڈاکٹر اکرام اللہ خان کو بھی کورونا وائرس ہوا تھا۔
علاوہ ازیں وزیر صحت خیبرپختونخوا نے بتایا تھا کہ ان کے معاون خصوصی کامران خان بنگش میں بھی کووڈ 19 کی تصدیق ہوئی تھی۔
مارچ کے مہینے میں ضلع مردان سے منتخب رکن صوبائی اسمبلی عبدالسلام آفریدی بھی کورونا وائرس کا شکار ہوئے تھے۔
رواں ماہ 7مئی کو صوبہ خیبرپختونخوا کے وزیر ہاؤسنگ ڈاکٹر امجد علی میں کورونا وائرس کی تصدیق ہوگئی اور وہ اس وقت قرنطینہ میں ہیں۔
اس سے قبل وزیر تعلیم سندھ سعید غنی میں کورونا وائرس کی تشخیص ہوئی تھی اور آئسولیشن میں رہنے کے دوران وہ وائرس سے صحتیاب ہو گئے تھے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button