ماں کے نام پر فنڈز کا استعمال خان کا ناقابل معافی جرم

سینئر اینکر پرسن اور تجزیہ کار حامد میر نے کہا ہے کہ سابق وزیر اعظم عمران خان کی جانب سے اسلام آباد کی عدالت میں یہ اعتراف ناقابل معافی حرکت ہے کہ انہوں نے شوکت خانم میموریل کینسر ہسپتال کے عطیات میں سے 30 لاکھ ڈالرز ایک پرائیویٹ ہائوسنگ سکیم میں سرمایہ کاری کے طور پر استعمال کیے۔ انہوں نے کہا کہ یہ ہسپتال کسی فرد واحد نے نہیں بلکہ کروڑوں پاکستانی عوام نے مل کر بنایا تھا، لہٰذا ہم توشہ خانہ سے خریدی گئی قیمتی گھڑیوں کے قصے تو نظر انداز کر سکتے ہیں لیکن ایک ماں کے نام پر بنائے گے کینسر ہسپتال کے عطیات کا غلط استعمال ناقابل معافی ہے۔

اپنی تازہ تحریر میں حامد میر بتاتے ہیں کہ خان صاحب نے یہ اعتراف وزیر دفاع خواجہ محمد آصف پر ہتک عزت کے دعوے کی سماعت کے دوران کیا ہے۔ خواجہ صاحب نے 2012ء میں الزام لگایا تھا کہ عمران خان نے اپنی والدہ کے نام پر قائم کئے گئے کینسر ہسپتال کو دیئے جانے والے عطیات کو نجی کاروبار کے لئے استعمال کیا۔ اس الزام کے بعد عمران خان نے خواجہ محمد آصف پر ہتک عزت کا دعویٰ دائر کردیا۔ خان صاحب کا خیال تھا کہ خواجہ صاحب ان سے معافی مانگ کر جان چھڑانے کی کوشش کریں گے لیکن خواجہ آصف اپنے الزام کو عدالت میں ثابت کرنے کے لئے ڈٹ گئے۔ پھر عمران خان کے وکیل نے اس مقدمے میں تاریخ پر تاریخ لینا شروع کردی۔ اس رویے پر انہیں جرمانہ بھی کیا گیا۔ آخر کار 21 جنوری کو خان صاحب ویڈیو لنک پر عدالت میں پیش ہوگئے اور خواجہ آصف کے وکیل کی جرح کے دوران یہ بھی تسلیم کر لیا کہ شوکت خانم کینسر ہسپتال کو دی جانے والی امدادی رقم کو کاروباری مقاصد کے لئے استعمال کیا گیا تاہم یہ رقم ہسپتال کو بغیر کسی نقصان کے واپس کردی گئی تھی۔

حامد میر کہتے ہیں کہ عمران خان کے اس اعتراف سے مجھے صدمہ ہوا ہے جس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ شوکت خانم ہسپتال سے میرا جذباتی لگائو ہے۔ مجھے آج بھی وہ دن یاد ہے جب عمران خان مجھے جوہر ٹائون لاہور لے کر گئے اور وہ جگہ دکھائی جو انہیں نواز شریف کی حکومت نے کینسر ہسپتال بنانے کے لئے الاٹ کی تھی۔ تب یہ جگہ لاہور شہر سے کافی باہر تھی اور وہاں کھیت ہی کھیت تھے۔ پھر ان کھیتوں کی جگہ پر ایک نیا شہر آباد ہوگیا اور عمران خان شوکت خانم کینسر ہسپتال قائم کرنے میں کامیاب ہوگئے۔

یہ صرف ایک فرد کی کامیابی نہیں تھی بلکہ پاکستان کے اندر اور باہر سے لاکھوں افراد نے اپنے عطیات کے ذریعہ عمران خان کے خواب کو حقیقت بنایا۔ لیڈی ڈیانا سے لے کر امیتابھ بچن اور دلیپ کمار سے لے کر نصرت فتح علی خان تک نے کینسر ہسپتال کے لئے عطیات اکٹھے کئے۔ کینسر ہسپتال کیلئے بھاگ دوڑ کرنے والے لاکھوں افراد میں یہ ناچیز بھی شامل رہا۔ میں نے جناب حبیب جالب سے کینسر ہسپتال کے لئے ایک نظم لکھوائی اور ان کی آپ بیتی میں اس نظم کو شامل بھی کرایا۔ جب بھی عمران خان، ڈاکٹر فیصل سلطان اور خواجہ نذیر نے ہسپتال کے لئے عطیات اکٹھے کرنے کے لئے کسی تقریب کی میزبانی کا کہا یا فنڈ ریزنگ میں شمولیت کے لیے کہا تو میں نے سارے کام چھوڑ کر اس میں حصہ لیا۔نوجوان نسل کو یہ معلوم نہیں کہ 1994ء میں شوکت خانم کینسر ہسپتال کا افتتاح ہوا تو محترمہ بےنظیر بھٹو وزیر اعظم تھیں لیکن افتتاحی تقریب میں وزیر اعظم کی بجائے تب کے اپوزیشن لیڈر نواز شریف کو مدعو کیا گیا۔

حامد میر کے بقول، محترمہ بے نظیر بھٹو نے ایک سے زائد مرتبہ مجھے کہا کہ آپ کا دوست عمران خان کینسر ہسپتال بنانے کے بعد سیاست شروع کر دیگا۔ میں جب بھی خان صاحب سے پوچھتا کہ آپ سیاست میں تو نہیں آنے والے؟ خان صاحب ہمیشہ کہتے کہ میں کوئی پاگل ہوں کہ سیاست میں آئوں گا۔ میں محترمہ بے نظیر بھٹو کو یہی کہتا کہ عمران خان سیاست میں نہیں آئے گا۔ وہ مسکرا کر کہا کرتیں کہ میں اسے تم سے زیادہ جانتی ہوں۔ وہ دیکھنے میں سیدھا سادہ لگتا ہے۔ دل کی بات زبان پر نہیں لاتا اور ایسا سرپرائز دیتا ہے کہ سب حیران رہ جاتے ہیں۔ حامد میر بتاتے ہیں کہ میں 1995ء میں محمد علی درانی کے گھر اس محفل کا بھی حصہ تھا جہاں جنرل حمید گل صاحب نے عمران خان کو سیاست میں آنے پر راضی کرنے کی کوشش کی اور خان صاحب نے کہا کہ فی الحال ان کا ایسا کوئی ارادہ نہیں لیکن چند مہینوں کے بعد انہوں نے تحریک انصاف بنانے کا اعلان کردیا۔ ان کی پہلی تقریر ضیاء شاہد نے لکھی تھی اور پارٹی کا نام حسن نثار نے رکھا۔ عمران کا سیاست میں آنا میرے لئے واقعی سرپرائز تھا۔ میں نے کئی مرتبہ اس خدشے کا اظہار کیا کہ خان صاحب کی سیاست کینسر ہسپتال پر منفی اثر ڈال سکتی ہے لیکن وہ ہمیشہ یہی کہتے کہ فکر نہ کرو میں سیاست کو ہسپتال سے علیحدہ رکھوں گا۔

حامد میر بتاتے ہیں کہ 2002ء میں عمران خان قومی اسمبلی میں اپنی پارٹی کے واحد ایم این اے تھے۔ وہ چوہدری نثار علی خان اور خواجہ آصف کے بہت قریب تھے۔ اسی قربت کے نتیجے میں عمران نے وزیراعظم کا ووٹ شاہ محمود قریشی کی بجائے مولانا فضل الرحمٰن کو دیا اور قرعہ فال میر ظفر اللہ خان جمالی کے حق میں نکلا۔ محترمہ بے نظیر بھٹو اور نواز شریف دونوں پاکستان میں نہیں تھے۔ ماضی میں مشرف کی دوستی کا دم بھرنے والے عمران خان نے کھل کر جنرل پرویز مشرف پر تنقید شروع کی تو عوام میں پذیرائی حاصل کرلی۔ پھر وہ احمد شجاع پاشا کی آنکھ کا تارا کیسے بنے اور جنرل قمر باجوہ نے انہیں وزیراعظم کیسے بنوایا؟ یہ کوئی راز نہیں رہا۔  جب عمران خان وزیراعظم بن گئے تو پاکستانی میڈیا پر پابندیوں اور حملوں کے ایک نئے دور کا آغاز ہوا۔

ظاہر ہے اس صورتحال میں ہم خاموش نہیں رہ سکتے تھے لہٰذا تحریک انصاف کے ’’فیض یافتہ‘‘ صاحبانِ اختیار نے ہمیں غدار اور ملک دشمن قرار دینا شروع کردیا لیکن شوکت خانم کینسر ہسپتال کیساتھ ہمارا جذباتی لگائو قائم رہا۔  لاہور کے بعد پشاور اور کراچی میں اس اسپتال کی شاخیں قائم کرنے کیلئے فنڈ ریزنگ میں مجھے جب بھی بلایا گیا، میں شامل ہوا۔ صرف میں ہی نہیں بلکہ عمران خان کے ساتھ سیاسی اختلاف رکھنے والے بہت سارے دیگر لوگ بھی کسی نمود و نمائش کے بغیر شوکت خانم اسپتال کے لئے عطیات اور زکوٰۃ دیتے ہیں۔ عام تاثر یہ ہے کہ عمران کی سیاست سے اختلاف کیا جا سکتا ہے لیکن وہ کبھی کسی مالی بے ضابطگی میں ملوث نہیں ہو سکتے۔

لیکن خواجہ محمد آصف کیخلاف ہتک عزت کے دعوے کی سماعت کے دوران خان صاحب نے شوکت خانم ہسپتال کیلئے دیئے گئے عطیات کو نجی کاروبار میں استعمال کرنے کا اعتراف کر۔کے مجھ سمیت ان تمام پاکستانیوں کے اعتماد کو مجروح کیا ہے جو خلوص نیت کے ساتھ اس نیک کام میں ان کا ساتھ دیتے رہے۔ حامد میر پوچھتے ہیں کہ کیا خان صاحب یہ بتانا پسند فرمائیں گے کہ کینسر ہسپتال کیلئے عطیات کو نجی ہاوسنگ سوسائٹی کے بزنس میں استعمال کرنے کا اصل ذمہ دار کون تھا اور اس کے خلاف کیا کارروائی ہوئی کیونکہ ماں کے نام پر بنائے گے کینسر ہسپتال کے عطیات کا غلط استعمال ناقابل معافی ہے۔

Related Articles

Back to top button