ڈینیل پرل کیس: ملزمان کی شکایت پر سندھ حکومت کو نوٹس جاری

سپریم کورٹ میں ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل پنجاب فیصل چوہدری نے ڈینیئل پرل قتل کیس کے ملزم احمد عمر شیخ کی رہائی کے خلاف درخواستوں پر سماعت کے دوران عمر شیخ کو سہولیات فراہم کرنے کی یقین دہانی کروا دی۔
سپریم کورٹ میں ڈینئل پرل قتل کیس کے ملزم احمد عمر شیخ کی رہائی کیخلاف درخواستوں پر جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے سماعت کی۔عدالت نے احمد عمر شیخ کی رہائی کیخلاف وفاق کی درخواست پر فریقین کو نوٹس جاری کر دیا۔عدالت نے ڈینیل پرل قتل کیس کے تین ملزمان کی شکایت پر سندھ حکومت کو بھی نوٹس جاری کر دیا۔دوران سماعت وکیل ملزمان نے عدالت کو بتایا کہ خالد، سلمان ثاقب اور عارف شیخ نے مجھے شکایتی خط بھیجا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ ‘ملزمان کا کہنا ہے انہیں اپارٹمنٹ میں طبی و دیگر سہولیات فراہم نہیں کی جا رہیں’، اس پر جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ ‘ملزمان کی شکایت پر سندھ حکومت کو نوٹس جاری کر رہے ہیں’۔وکیل نے عدالت کو بتایا کہ ‘میرے موکل احمد عمر شیخ کو فلیٹ میں نقل و حرکت نہیں کرنے دی جاتی’۔ان کا کہنا تھا کہ ‘احمد عمر شیخ کو صرف بیٹے اور بیوی سے ملنے دیا جاتا ہے، انہیں ساس، چچا اور چچی سے نہیں ملنے دیا جاتا’۔ان کا کہنا تھا کہ ‘احمد عمر شیخ اور دیگر ملزمان کو ریسٹ ہاؤس میں سہولیات فراہم نہیں کی جا رہیں، انہیں رات کو کمروں میں بند کر دیا جاتا ہے’۔عدالت میں ایڈیشنل ایڈوکیٹ جنرل پنجاب فیصل چوہدری نے عمر شیخ کو سہولیات فراہمی کی یقین دہانی کرواتے ہوئے کہا کہ ‘میں یقین دہانی کرواتا ہوں کہ احمد عمر شیخ کی اپارٹمنٹ میں نقل و حرکت پر کوئی پابندی نہیں ہوگی’۔اٹارنی جنرل نے احمد عمر شیخ سے ساس، چچا اور چچی کی ملاقات کروانے کی بھی یقین دہانی کروائی۔ان کا کہنا تھا کہ ‘یہ کہنا درست نہیں کہ کمروں میں بند کر دیا جاتا ہے، کمروں کو نہیں بلکہ فلیٹ کو لاک کر دیا جاتا ہے’۔بعد ازاں عدالت کیس کی سماعت غیر معینہ مدت کیلئے ملتوی کر دی۔واضح رہے کہ سندھ حکومت اور وفاقی حکومت نے احمد عمر شیخ کی رہائی کے خلاف درخواستیں دائر کر رکھی ہیں۔امریکی اخبار وال اسٹریٹ جنرل کے جنوبی ایشیا کے بیورو چیف 38 سالہ ڈینیئل پرل کراچی میں مذہبی انتہا پسندی پر تحقیق کررہے تھے جب انہیں جنوری 2002 میں اغوا کے بعد قتل کردیا گیا تھا۔سال 2002 میں امریکی قونصل خانے کو بھجوائی گئی ڈینیئل پرل کو ذبح کرنے کی گرافک ویڈیو کے بعد عمر شیخ اور دیگر ملزمان کو گرفتار کیا گیا تھا۔انسداد دہشت گردی کی عدالت نے ملزم احمد عمر سعید شیخ المعروف شیخ عمر کو سزائے موت جبکہ شریک ملزمان فہد نسیم، سلمان ثاقب اور شیخ عادل کو مقتول صحافی کے اغوا کے جرم میں عمر قید کی سزا سنائی تھی۔بعد ازاں حیدر آباد کی انسداد دہشت گردی عدالت کی جانب سے شیخ عمر اور دیگر ملزمان کو اغوا اور قتل کا مرتکب ہونے پر سزا ملنے کے بعد ملزمان نے 2002 میں سندھ ہائی کورٹ سے رجوع کیا تھا۔ہائی کورٹ کے 2 رکنی بینچ نے ریکارڈ کا جائزہ لینے، دلائل سننے کے بعد ملزمان کی 18 سال سے زیر التوا اور حکومت کی جانب سے سزا میں اضافے کی اپیلوں پر سماعت کی تھی اور مارچ میں فیصلہ محفوظ کیا تھا جسے 2 اپریل کو سنایا گیا۔سندھ ہائی کورٹ نے امریکی صحافی ڈینیئل پرل کے اغوا کے بعد قتل کے مقدمے میں 4 ملزمان کی انسداد دہشت گردی کی عدالت کی جانب سے سزا کے خلاف دائر اپیلوں پر فیصلہ سناتے ہوئے 3 کی اپیلیں منظور کرلی تھیں جبکہ عمر شیخ کی سزائے موت کو 7 سال قید میں تبدیل کردیا تھا جو کہ وہ پہلے ہی پوری کرچکے تھے۔تاہم رہائی کے احکامات کے فوری بعد ہی سینٹرل انٹیلیجنس ایجنسی (سی آئی اے) کے ڈپٹی انسپکٹر جنرل (ڈی آئی جی) نے سندھ حکومت کو خط لکھا تھا جس میں ملزمان کی رہائی سے نقصِ امن کا خدشہ ظاہر کیا گیا تھا۔چنانچہ مینٹیننس آف پبلک آرڈر (ایم پی او) آرڈیننس کے تحت صوبائی حکام نے انہیں 90 دن کے لیے حراست میں رکھا تھا، یکم جولائی کو انسداد دہشت گردی ایکٹ 1997 کے تحت ایک نیا نوٹیفکیشن جاری کیا گیا تھا جس کے تحت مزید تین ماہ کے لیے انہیں حراست میں رکھا گیا اور بعد ازاں ان کی قید میں مزید توسیع ہوتی رہی۔تاہم 25 دسمبر کو سندھ ہائی کورٹ نے ڈینیئل پرل قتل کیس میں رہا ہونے والے چاروں ملزمان کو زیر حراست رکھنے کے لیے صوبائی حکام کے جاری کردہ ‘پریوینشن ڈیٹینشن آرڈرز’ کو کالعدم قرار دے دیا تھا۔

Related Articles

Back to top button