سندھ کے چیف جسٹس، سپریم کورٹ نہ جانے پر ڈٹ گئے


سندھ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس احمد علی شیخ کی جانب سے سپریم کورٹ کا ایڈہاک جج بننے سے مسلسل انکار کے باوجود وزیراعظم عمران خان کی سفارش پر صدر عارف علوی کی طرف سے انکی تعیناتی کا نوٹی فیکیشن جاری کرنے پر وکلا برادری نے سخت ترین تنقید کرتے ہوئے احتجاج کا اعلان کیا ہے۔
یاد رہے کہ جسٹس احمد علی شیخ کے انکار کے باوجود انہیں 17 اگست کو اسلام آباد میں سپریم کورٹ کے ایڈہاک جج کی حیثیت سے حلف اٹھانے کے لئے دعوت نامہ ارسال کیا گیا ہے۔ جواب میں چیف جسٹس احمد علی شیخ نے کہا ہے کہ میرا نوٹیفکیشن بغیر کسی قانونی اختیار کے جاری کیا گیا ہے اور اس کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہے۔ جسٹس شیخ نے کہا کہ اس قسم کا نوٹیفکیشن جاری کرنے کے لیے متعلقہ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کی رضامندی حاصل کرنا ضروری ہے۔ انہوں نے اس بات کا اعادہ کیا کہ انہوں نے سپریم کورٹ کے ایڈہاک جج بننے کے لیے اپنی رضامندی دینے سے واضح طور پر انکار کر دیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ وہ زبانی طور پر اور پھر تحریری طور پر 5، 6 اور 10 اگست 2021 کو لکھے گے تین خطوط کے ذریعے چیف جسٹس سپریم کورٹ اور صدر مملکت کو اپنے فیصلے سے آگاہ کر چکے ہیں لیکن اس کے باوجود ان کا نوٹیفکیشن جاری کیا گیا ہے جو کہ ایک غیر قانونی عمل ہے۔ انہوں نے اپنے خطوط میں واضح طور پر لکھا تھا کہ وہ صرف ایک ہی صورت سپریم کورٹ جا سکتے ہیں، اگر انہیں ایڈہاک کی بجائے مستقل جج کے طور پر ترقی دی جائے۔
انہوں نے تحریری طور پر صدر پاکستان اور چیف جسٹس سپریم کورٹ کو آگاہ کیا ہے کہ ‘اس پس منظر میں وہ حلف برداری کی تقریب میں شرکت نہیں کریں گے جو کہ 17 اگست 2021 کو ہونے رہی ہے۔ اس سے پہلے وزیر اعظم عمران خان کی تجویز پر صدر عارف علوی نے سندھ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کو ایک سال کی مدت کے لیے سپریم کورٹ کا ایڈہاک جج مقرر کیا تھا۔ جوڈیشل کمیشن آف پاکستان نے گزشتہ ہفتے پانچ میں سے چار کی اکثریت سے فیصلہ کیا تھا کہ جسٹس احمد علی شیخ کو ایک سال کی مدت کے لیے سپریم کورٹ کا ایڈہاک جج بننے کی دعوت دی جائے بشرطیکہ وہ اس کے لیے راضی ہوں۔ سندھ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس نے اس سے قبل جوڈیشل کمیشن کو لکھے گئے خطوط میں اس تاثر کو رد کیا تھا کہ انہوں نے کبھی ایڈہاک جج کی حیثیت سے سپریم کورٹ میں ترقی کے لیے اپنی رضامندی ظاہر کی تھی۔ باخبر ذرائع نے بتایا کہ جسٹس احمد علی شیخ نے ایک بار پھر عدالت عظمیٰ کے بینچز پر بیٹھنے سے معذرت کرتے ہوئے تعیناتی کا نوٹیفکیشن جاری ہونے کے چند گھنٹوں بعد ہی چیف جسٹس آف پاکستان گلزار احمد اور صدر عارف علوی کو علیحدہ خط لکھے۔ سندھ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس نے اپنے خط میں لکھا کہ ہائی کورٹ کے رجسٹرار ان کے نوٹس میں یہ بات لائے ہیں کہ صدر کی جانب سے جاری ایک نوٹیفکیشن کے تحت مجھے ایڈ ہاک جج کی حیثیت سے ایک سال کی مدت کے لیے سپریم کورٹ کی بینچز پر بیٹھنا ہے’۔ انہوں نے کہا کہ نوٹیفکیشن اس حقیقت کے باوجود جاری کیا گیا کہ انہوں نے ‘مسلسل اور بار بار سپریم کورٹ کی نشستوں میں بطور ایڈہاک جج شرکت کرنے سے انکار کیا ہے’۔
اس اقدام پر تنقید کرتے ہوئے سندھ ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سیکریٹری محمد عمر سومرو نے اعلان کیا کہ سندھ ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے اراکین صدر کی جانب سے جسٹس احمد علی شیخ کی تقرری سے متعلق ان کی رضامندی کے خلاف جاری کردہ ‘غیر آئینی’ نوٹیفکیشن پر منگل کو مکمل ہڑتال کریں گے۔ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر رشید اے رضوی نے بتایا کہ سندھ بار کونسل کے ساتھ سندھ ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن جلد سپریم کورٹ میں پٹیشنوں کا ایک مجموعہ دائر کرکے اس پیش رفت کو چیلنج کرے گی۔
سندھ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کی جانب سے ایڈہاک جج کے طور پر حلف اٹھانے سے انکار بارے قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ آئین کا آرٹیکل 206 یا آرٹیکل 209 نافذ ہو گا یا کچھ بھی نہیں ہوگا، اس کی تشریح ابھی باقی ہے۔ ا ہوں نے کہا کہ آرٹیکل 206 (2) استعفیٰ سے متعلق ہے اور وضاحت کرتا ہے کہ ہائی کورٹ کا جج جو سپریم کورٹ کے جج کے طور پر تقرری کو قبول نہیں کرتا وہ اپنے عہدے سے ریٹائرڈ سمجھا جائے گا۔ اسی طرح آرٹیکل 209 سپریم جوڈیشل کونسل سے متعلق ہے جس میں جج کو ہٹانے کے لیے اس کے خلاف درخواست دی جاتی ہے کہ جج جسمانی یا ذہنی معذوری یا بدتمیزی کی وجہ سے جج کے عہدے کے فرائض کو صحیح طریقے سے انجام دینے کے قابل نہیں ہے۔

Related Articles

Back to top button