کیا شہباز کی رہائی سے مفاہمتی دھڑا پھر حاوی ہو جائے گا؟

مسلم لیگ نواز کے صدر اور اپوزیشن لیڈر شہباز شریف کی لاہور ہائی کورٹ سے ضمانت کے بعد رہائی کو ملک کے سیاسی منظرنامے میں ایک اہم پیش رفت کے طور پر دیکھا جا رہا اور یہ سوال کیا جا رہا ہے کہ کیا وہ کسی مفاہمتی ڈیل کے تحت باہر آئے ہیں؟ یاد رہے کہ شہباز شریف کی رہائی سے چند ہفتے پہلے ان کے صاحبزادے حمزہ شہباز شریف بھی نیب کی لمبی قید سے ضمانت پر رہائی پانے کے بعد سیاسی طور پر متحرک ہو کر اپنے والد کا مفاہمتی بیانیہ آگے بڑھا رہے ہیں۔ اس دوران اس طرح کی اطلاعات بھی آ رہی ہیں کہ حمزہ شہباز اور مریم نواز کے مابین مزاحمتی اور مفاہمتی بیانیہ لے کر چلنے کے معاملے پر اختلافات پیدا ہو چکے ہیں۔ یاد رہے کہ پچھلے دنوں مریم نواز نے ان خبروں کی سختی سے تردید کی تھی کہ ایک پارٹی اجلاس کے دوران حمزہ شہباز کی ان سے سخت تلخ کلامی ہوئی۔ انہوں نے ایسی خبریں پھیلانے والوں کو لعن طعن کرتے ہوئے کہا تھا کہ انکے اور حمزہ کے تعلقات مثالی ہیں اور افواہوں کا مقصد پارٹی میں انتشار پیدا کرنا ہے۔ تاہم حمزہ کے قریبی ذرائع دعوی کرتے ہیں کہ تلخ کلامی نہ بھی ہوئی ہو تو بھی مریم نواز کو بتا دیا گیا ہے کہ اب پارٹی کے معاملات باہمی مشورے اور ہوشمندی سے چلائے جایئں گے نہ کہ جوش سے اور یکطرفہ طور پر۔ لیگی ذرائع کا کہنا یے کہ مسلم لیگ نواز میں اب مفاہمتی اور مزاحمتی بیانیے کی کشمکش تیز تر ہو چکی ہے اور مفاہمتی بیانیے کے ایک اور سرخیل خواجہ محمد آصف بھی جلد نیب کی قید سے ضمانت پر باہر آنے والے ہیں۔
یاد رہے کہ شہباز شریف اپنے بھائی اور سابق وزیراعظم نواز شریف کے برعکس مفاہمتی سیاست کے زیادہ قائل ہیں۔ تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ منی لانڈرنگ کیس میں ضمانت کے بعد شہباز شریف کے جیل سے باہر آنے سے ملک کی سب سے بڑی اپوزیشن جماعت کی سیاسی حکمت عملی میں واضح تبدیلی رونما ہونے کا امکان ہے جس سے قومی سیاسی منظرنامے اور اپوزیشن اتحاد پی ڈی ایم کے مستقبل پر گہرے اثرات مرتب ہوں گے۔ یاد رہے کہ پیپلز پارٹی نے نواز لیگ کی جانب سے یوسف رضا گیلانی کو سینیٹ میں اپوزیشن لیڈر تسلیم نہ کرنے کے اعلان کے بعد شہباز شریف کو قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر نہ ماننے کا اعلان کر دیا تھا۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ مفاہمت بیانیہ لے کر چلنے والے شہباز شریف کے دوبارہ سیاسی طور پر متحرک ہونے کے بعد اس بات کا امکان بھی موجود ہے کہ نواز لیگ یوسف رضا گیلانی کو اپوزیشن لیڈر تسلیم کرنے پر مجبور ہو جائے تاکہ پیپلزپارٹی بھی ان کو اپوزیشن لیڈر تسلیم کر لے۔
دوسری طرف حکومت بھی یہ امید لگائے بیٹھی ہے کہ شہباز شریف اور مریم نواز کی سیاسی حکمت عملی کے فرق کی وجہ سے مسلم لیگ نواز میں اندرونی تقسیم سامنے آ سکتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ​حکومتی وزرا ایک عرصے سے ن سے ش نکلنے کی پیشگوئیاں کر رہے ہیں جس کا مطلب ہے کہ مسلم لیگ نواز سے شہباز شریف اور حال ہی میں رہا ہونے والے ان کے بیٹے حمزہ شہباز اپنا دھڑا بنا کر الگ ہو جائیں۔ وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے سیاسی ابلاغ شہباز گل نے تو چند روز پہلے ہی اپنے ایک ٹویٹ میں شہباز شریف کی ضمانت پر رہائی کا اشارتاً ذکر کرتے ہوئے اسے مریم نواز کے لیے بری خبر قرار دے دیا تھا۔انہوں نے شہباز شریف اور مریم نواز کا نام لیے بغیر لکھا تھا ’آج کوئی خاتون اپنا فون بار بار چیک کر رہی ہیں۔ اسے ڈر ہے کہ کہیں ان کا کوئی بہت ہی اپنا جیل سے باہر نہ آ جائے۔ کیونکہ اگر وہ آ گیا تو ان کو مکمل سائیلنٹ موڈ اختیار کرنا پڑے گا۔ جیسے ڈسکہ الیکشن میں ان کو منظر سے غائب ہونا پڑا ویسے ہی انہیں ہر جگہ سے سیاسی طور پر غائب ہونا پڑے گا‘۔ یاد رہے کہ مریم نواز ڈسکہ کے ضمنی الیکشن میں پچھلے تین ماہ سے بہت زیادہ متحرک تھیں لیکن پھر حمزہ شہباز کے باہر آنے کے بعد وہ منظر سے غائب ہوگئیں اور حمزہ نے ڈسکہ الیکشن کی ذمہ داری سنبھال لی۔ دوسری جانب مریم کے قریبی ذرائع کا کہنا ہے کہ ان کی طبیعت پچھلے کچھ ہفتوں سے ناساز ہے جس وجہ سے وہ سیاسی منظر نامے سے غائب ہیں۔
گو کہ شہباز شریف اکتوبر 2018 میں بھی نیب کے آشیانہ ہاوسنگ سکینڈل میں چند ماہ گرفتار رہ چکے ہیں مگر 28 ستمبر 2020 کو نیب نے انہیں ایک مرتبہ پھر اس وقت گرفتار کر لیا جب لاہور ہائی کورٹ نے ایک اور مقدمے میں ان کی ضمانت مسترد کر تھی۔ اس بار ان پر منی لانڈرنگ کا الزام عائد کیا گیا جس میں خاندان کے دوسرے افراد کو بھی نامزد ہیں۔ تاہم شہباز شریف کے قریبی ذرائع کا کہنا تھا کہ ان کی گرفتاری کی بنیادی وجہ نواز شریف اور مریم نواز کا فوجی قیادت مخالف بیانیہ تھا۔ ان کی گرفتاری سے مسلم لیگ نواز میں مفاہمتی بیانیہ کمزور پڑ گیا اور ان کی بھتیجی مریم نواز نے مزاحمتی بیانیہ آگے بڑھا کر خاصی مقبولیت حاصل کی اور اپوزیشن اتحاد کے ساتھ مل کر ملک گیر حکومت مخالف تحریک چلائی جس میں اسٹیبلشمنٹ کو بھی نشانہ بنایا گیا۔ تاہم مسلم لیگ میں مفاہمتی بیانیے کے حمایتی کہتے ہیں کہ مریم نواز کے جانب سے فوجی قیادت مخالف بیانیہ اپنانے کا نقصان یہ ہوا کہ فوج اور عمران خان اور بھی قریب ہو گے اور ڈٹ کر ایک دوسرے کے ساتھ کھڑے ہو گئے۔
تاہم حالیہ چند ہفتوں سے مریم نواز سیاسی طور پر زیادہ سرگرم نظر نہیں آ رہیں گو کہ گا ہے بگاہے ان کی ٹویٹس سامنے آتی ہیں تاہم ان کی پراسرار خاموشی کو شہباز گل جیسے حکومتی مشیروں نے بھی نوٹ کیا اور اس پر تبصرہ کرتے ہوئے اسے کسی ’ڈیل‘ کا شاخسانہ قرار دے دیا۔ دوسری طرف مسلم لیگ نواز کی ترجمان مریم اورنگزیب کے مطابق مریم کی سیاست سے دوری عارضی یے جس کی وجہ انکی طبیعت کی خرابی ہے۔ نواز لیگ میں بیانیہ کے اختلاف پر مریم اورنگزیب کا کہنا تھا کہ ن لیگ میں ووٹ بینک نواز شریف کا ہے اور پالیسی بھی ان کی چلتی یے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ پہلے تو پارٹی کے صدر شہباز جیل میں تھے، اب جبکہ ان کی ضمانت منظور ہو چکی ہے تو کیا وہ اپنا مفاہمتی بیانیہ لے کر آگے چلیں گے یا نواز شریف کا مزاحمتی بیانیہ؟ اس حوالے سے سینیئر صحافی اور تجزیہ کار مجیب الرحمن شامی کا کہنا تھا کہ مسلم لیگ ن میں اختلافات کو نہ شہباز افورد کر سکتے ہیں اور نہ ہی نواز۔ دونوں بھائیوں میں سیاسی نکتہ نظر اور اپروچ کا فرق ہے اور یہ بہت عرصے سے چل رہا ہے تاہم اس کے باوجود دونوں ساتھ چلتے ہیں کیونکہ شہباز شریف کو پتا ہے کہ ووٹ کی طاقت نواز کے ساتھ ہے اس لیے اختلاف رائے حدود کے اندر ہی رہے گا اور پارٹی میں کسی بغاوت کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا‘۔مجیب الرحمان شامی کے مطابق شہباز کی رہائی کے باوجود مسلم لیگ اسی طرح ایک قدم آگے دو قدم پیچھے چلتی رہے گی تاہم شہباز شریف کو موقع ملتا ہے تو بہتری آئے گی۔ ان کا کہنا ہے کہ اب یہ بات واضح ہو چکی کہ تبدیلی بذریعہ محاز آرائی نہیں آئے گی بلکہ ووٹ کے ذریعے آئے گی۔ انکا کہنا تھا کہ پی ڈی ایم سے پیپلز پارٹی اور اے این پی کے استعفوں کے بعد اپوزیشن بہت کمزور ہو چکی اور اب کسی تحریک کے ذریعے حکومت ہٹانے کے امکانات تقریباً ختم ہو چکے ہیں۔ انکا کہنا تھا کہ شہباز شریف کی طاقت ووٹ ہے اور وہ اگر ملک میں منصفانہ الیکشن کا مطالبہ منظور کروانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو یہ مسلم لیگ نواز کے لیے ایک اچھی خبر ہوگی اور ان تمام قوتوں کے لیے بھی جو وزیراعظم عمران خان کو ہٹانے کا ارادہ رکھتی ہیں۔
انگریزی اخبار پاکستان ٹوڈے کے ایڈیٹر عارف نظامی سمجھتے ہیں کہ شہباز شریف کی رہائی سے سیاسی منظرنامے پر فرق پڑے گا۔ انکا کہنا ہے کہ ظاہر ہے شہباز مسلم لیگ نواز کے صدر ہیں اور اپنا مخصوص نکتہ نگاہ رکھتے ہیں اور وہ رہائی کے بعد اس کا اظہار بھی کریں گے۔ یوں بلواسطہ طور پر مریم نواز کا ہارڈ لائن بیانیہ کمزور ہوگا اور پیپلز پارٹی کے مفاہمت والے بیانیے کو تقویت ملے گی۔
عارف نظامی کے مطابق پی ڈی ایم اتحاد تو شاید اب دوبارہ پہلے جیسی حیثیت میں بحال نہ ہو تاہم مسلم لیگ نواز کے پیپلز پارٹی سے تعلقات اب آہستہ آہستہ بہتر ہو سکتے ہیں خصوصا شہباز کے باہر آنے کے بعد۔
اردو اخبار جنگ سے منسلک سنئیر صحافی و تجزیہ کار سہیل وڑائچ کے مطابق شہباز شریف کی رہائی سے سیاسی افق پر فرق پڑے گا اور مسلم لیگ نواز کے مخاصمت والے بیانیے میں کمی آئے گی۔ انکا۔کہنا ہے کہ شہباز شریف کا اسٹیبلشمنٹ سے مفاہمت والا تعلق ہوگا کیونکہ وہ کھل کر ڈائیلاگ کے حامی ہیں اور کھل کر مفاہمت کی سیاست کرتے ہیں۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button