اب ہیجڑے حکومت کے لیے ٹیکس وصولی کریں گے


ڈیرہ غازی خان شہر میں میں خواجہ سراوں کے ذریعے ٹیکس نادہندگان سے واجب الادا رقم وصول کرنے کا تجربہ کامیاب ہونے کے بعد اب حکومت پنجاب نے صوبے بھر میں خواجہ سراؤں سے یہ کام لینے کی ٹھان لی ہے۔ یاد رہے کہ سپریم کورٹ آف پاکستان نے تقریباً 11 سال قبل اپنے ایک فیصلے میں خواجہ سراؤں کو برابر کا شہری تسلیم کرتے ہوئے حکومت کو ہدایت کی تھی کہ وہ ایسی حکمتِ عملی ترتیب دے جس سے خواجہ سراؤں کو متبادل روزگار مل سکے۔
ذرا تصور کیجئے کہ ایک دن آپ نیند سے بیدار ہوں تو پتا چلے کہ حکومتی اہلکار آپ کے گھر کے باہر تالا لگا کر اسے نہ صرف سیل کر گئے ہیں بلکہ باہر آپ کے ٹیکس نادہندہ ہونے کا ایک بڑا سا نوٹس بھی چسپاں کر گئے ہیں جس سے سارے محلے کو معلوم ہو چکا ہے کہ آپ نے ٹیکس ادا نہیں کیا اور پکڑے گے ہیں۔ دنیا بھر میں ٹیکس نادہندگان سے رقم نکلوانے کے لیے محکمہ ٹیکسیشن کے اہلکار مختلف تدابیر اختیار کرتے ہیں۔ لیکن پنجاب کے ضلع ڈیرہ غازی خان کے ٹیکس نادہندگان کے گھروں کے باہر تالے لگے اور نہ ہی نوٹس چسپاں کیے گئے بلکہ خواجہ سرا ٹیکس کی رقم نکلوانے کے لیے اُن کے گیٹ پر پہنچ گئے۔ ہاتھوں میں مالکان کی ٹیکس ناہندگی کے نوٹس اٹھائے، مختلف گھروں کی گھنٹیاں بجاتے ان خواجہ سراؤں کو محکمہ ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن پنجاب کے ڈیرہ غازی خان ڈویژن کی جانب سے خاص اسی کام کے لیے بھرتی کیا گیا ہے۔
خواجہ سراؤں کے بارے میں عام تاثر یہ ہے کہ وہ بھیک مانگنے سمیت ناچ گانے اور جسم فروشی کو محدود تنخواہ والی باعزت نوکری پر ترجیح دیتے ہیں۔ لیکن، ایشیا کے دوسرے ملکوں کی طرح پاکستان میں بھی کرونا وائرس اور لاک ڈاؤن کے باعث خواجہ سراؤں کے روزگار کے یہ ذرائع تقریباً ختم ہو کر رہ گئے۔ نوبت جب فاقوں تک پہنچی تو یہ بیچارے سڑکوں پر بھیک مانگنے پر مجبور ہو گئے۔ کچھ ایسے ہی مناظر ڈیرہ غازی خان میں بھی معمول بن گئے تھے جس کے بعد محکمہ ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن کے ایک سینیئر افسر نے ان کو روزگار مہیا کرنے کا فیصلہ کیا۔ ڈیرہ غازی خان میں نادہندگان سے ٹیکس وصولی کے لیے خواجہ سراؤں کی خدمات لینے والے اس پائلٹ پراجیکٹ کو ڈی جی خان میں محکمہ پنجاب کے ڈائریکٹر ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن محمد آصف نے شروع کیا ہے۔ آصف نے بتایا کہ انھیں جو 13 قسم کے ٹیکس وصول کرنے ہوتے ہیں ان میں سے ایک پراپرٹی ٹیکس بھی ہے اور ان کے ڈویژن ڈی جی خان میں تقریباً 1700 یونٹ ایسے گھر تھے جنھوں نے ٹیکس کے واجبات ادا نہیں کیے تھے، مرد حضرات خود موجود نہیں تھے اور خواتین کو گرفتار نہیں کیا جا سکتا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ چونکہ زیادہ تر گھروں میں خواتین اور بچے مقیم تھے لہٰذا باہر سے انھیں سیل کر کے نیلامی کے ذریعے ٹیکس وصول کرنا ممکن نہیں تھا۔
ایسے میں انھیں خیال آیا کہ کیوں نہ خواجہ سراؤں کو اس کام کے لیے استعمال کیا جائے جو کووڈ کی وجہ سے سڑکوں پر بھیک مانگنے پر مجبور ہیں۔ آصف بتاتے ہیں کہ ڈی جی خان میں ڈاٹ پل جہاں چاروں صوبوں کی ٹریفک ملتی ہے، پر جب ان کی ٹیم موٹر وہیکل ٹیکس کی وصولی کے لیے کام کر رہی تھی تو اس دوران انھوں نے خواجہ سراؤں کو بھیک مانگتے دیکھ کر ان سے اس پراجیکٹ کے حوالے سے بات کی۔ ڈائریکٹر ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن نے اس پراجیکٹ کی تفصیل بتاتے ہوئے کہا کہ اسے شروع کرنے سے پہلے دو دن ان خواجہ سراؤں کو ٹریننگ دی گئی کہ فیلڈ میں گھر گھر جا کر کیسے بات کر کے ٹیکس وصولی کرنا ہے۔ یہ خواجہ سرا پولیس کی گاڑی میں سکواڈ کے ساتھ ناہندگان کے گھروں تک جاتے ہیں جہاں کانسٹیبل ان کے ساتھ ہوتے ہیں اور انھیں بتاتے ہیں کہ اس گھر سے ٹیکس وصول کرنا ہے۔
اس موقع پر نادہندہ کا نوٹس خواجہ سراؤں کے ہاتھ میں ہوتا ہے اور وہ گھنٹی بجا کر یا دروازہ کھڑکا کر باہر نکل کر آنے والی خاتون یا مرد کو سمجھانے کی کوشش کرتے ہیں کہ آپ کی اس جائیداد پر اتنا ٹیکس واجب الادا ہے، اس پر سرچارج کی رقم کتنی بنتی ہے اور ٹیکس ادا نہ کرنے کے صورت میں گرفتاری اور جائیداد ضبط کر کے اسے نیلام کیے جانے سمیت اور کیا کیا نتائج ہو سکتے ہیں۔
محمد آصف کہتے ہیں کہ ’عام طور پر خواجہ سرا کو دروازے پر دیکھ کر لوگ وعدہ کر لیتے ہیں کہ شام کو آئیں یا کل آئیں، یا رقم ادا کر دیتے ہیں۔‘ان کا کہنا تھا اس کام کے لیے ڈھول، باجے وغیرہ کسی چیز کا استعمال کر کے محلے میں تماشا بنانے کی کوشش نہیں کی جاتی کیونکہ ہمارا مقصد صرف ٹیکس کی وصولی ہے، کسی کی عزت اچھالنا نہیں۔‘ انھوں نے بتایا کہ اس پروجیکٹ کے ساتھ اب تک 10 خواجہ سرا وابستہ ہیں جن میں سے تین سے سات ان کے ساتھ روزانہ کی بنیاد پر کام کر رہے ہیں۔ خواجہ سراؤں کو پک اینڈ ڈراپ، کھانا، چائے اور ایڈوانس کے علاوہ فی یونٹ ریکوری کا ایک سو روپیہ ادا کیا جاتا ہے۔’ان خواجہ سراؤں میں سے اگر کوئی چائے کا رسیا ہے یا کولڈ ڈرنک، سگریٹ وغیرہ پینا چاہتا ہے تو وہ سب بھی انھیں مہیا جاتا ہے تاکہ وہ مطمئن ہو کر ٹیکس وصولی کا کام کر سکیں۔‘
ڈی جی ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن پنجاب صالحہ سعید نے دعویٰ کیا ہے کہ ڈیرہ غازی خان میں نادہندگان سے ٹیکس وصولی کے لیے خواجہ سراؤں کی خدمات حاصل کرنے کا تجربہ کامیاب رہا ہے اور اب صوبے بھر میں ان سے یہ کام لیا جائے گا۔ جب پوچھا گیا کہ وہ کس بنیاد پر اس تجربے کو کامیاب پراجیکٹ کہہ رہے ہیں، تو آصف کا کہنا تھا کہ ’سچی بات یہ ہے کہ چونکہ یہ نیا کام ہے لہٰذا ابھی تک ہماری توقعات کے مطابق وصولی ممکن نہیں ہو سکی۔ لیکن اس پراجیکٹ کے ذریعے ہمیں دو فائدے حاصل ہوئے۔ ایک تو ٹیکس وصول ہو رہا ہے دوسرا ان خواجہ سراؤں کو باعزت روزگار کے ساتھ ساتھ تحفظ کا احساس ملا ہے۔‘ وہ کہتے ہیں کہ ان ناہندگان سے وصولی کی رقم اگرچہ زیادہ نہیں اور آٹھ سے 10 ہزار کے درمیان ہے لیکن اس پراجیکٹ کے ذریعے وہ ایک تو ’ان خواجہ سراؤں کو سمجھانا چاہتے تھے کہ بھیک مانگنے کے علاوہ روزگار کمانے کے دوسرے باعزت ذرائع بھی ہیں‘ اور دوسرا وہ معاشرے کو یہ پیغام دینا چاہتے تھے کہ ’خواجہ سرا بھی انسان ہیں اور ہمارے معاشرے کا حصہ ہیں لہٰذا انھیں حقیر نہ جانیں اور انکی زندگیاں باعزت بنانے میں مدد کریں۔‘

Related Articles

Back to top button