سپیکربلوچستان اسمبلی وزیر اعلیٰ کی چھٹی کرواتے خود مشکل میں پڑ گئے

اپنے انتخابی حلقے آواران میں مداخلت روکنے کے لیے وزیر اعلی بلوچستان جام کمال کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے کا دعوی کرنے والے سپیکر اسمبلی عبدالقدوس بزنجو کو لینے کے دینے پڑ گئے ہیں۔ جام کمال نے اسٹیبلشمنٹ کی مدد سے عبدالقدوس بزنجو کو گھر بھجوا کر جان محمد جمالی کو نیا سپیکر بلوچستان اسمبلی منتخب کروانے کی تیاری شروع کردی ہے۔
بلوچستان کی پارلیمانی سیاست میں ایک بار پھر ہلچل مچی ہوئی ہے۔ سپیکر بلوچستان اسمبلی میر عبدالقدوس بزنجواپنی ہی پارٹی کے وزیر اعلی جام کمال کے خلاف کھل کر سامنے آگئے ہیں تاہم واقفان حال کا کہنا ہے کہ عبدالقدوس بزنجو کو لینے کے دینے پڑ گئے ہیں اور انہیں خود اپنی سپیکر شپ بچانے کی فکر لاحق ہوگئی ہے کیونکہ اسٹیبلشمنٹ نے اپنا وزن وزیراعلی جام کمال کے پلڑے میں ڈال دیا ہے۔ میر عبدالقدوس بزنجو کا خیال ہے کہ جام کمال بطور وزیر اعلی حکومت چلانے کی اہلیت نہیں رکھتے ،انہوں نے جام کمال کے خلاف بہت جلد تحریک عدم اعتماد لانے کا اشارہ بھی دیا ہے۔ تاہم یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا واقعی اسپیکر عبدالقدوس بزنجو اپنے ہی پارٹی کے وزیر اعلی کے خلاف تحریک لانے کی پوزیشن میں ہیں اور آیا بلوچستان عوامی پارٹی سے تعلق رکھنے والے اراکین اسمبلی کی اکثریت بھی اس مشن میں ان کے ساتھ کھڑی ہے، جس کی بنیاد پر وہ وزیر اعلی کے خلاف جلد تحریک عدم اعتماد لانے کا دعوی کر رہے ہیں۔
بلوچستان کی سیاست پر گہری نظر رکھنے والے تجزیہ کاروں کے خیال میں سپیکر عبدالقدوس بزنجو کے دعووں کو اگر سنجیدگی سے دیکھا جائے تو قطعی طور پر یہ نہیں کہا جا سکتا ہے کہ وہ وزیر اعلی جام کمال کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے کی سکت رکھتے ہیں۔ تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ بزنجو پہلی بار جام کمال خلاف تحریک عدم اعتماد لانے کا دعوی نہیں کر رہے بلکہ اس سے پہلے وہ دو مرتبہ یہ دعوی کر چکے ہیں۔ پچھلی بار عبد القدوس بزنجو کا ساتھ دینے والے میر سرفراز ڈومکی کو اپنے وزارت سے ہاتھ دھونا پڑا تھا اس لیے بزنجو کا ساتھ دینے سے پہلے وزراء اور اراکین اسمبلی یہ ضرور سوچیں گے کہ کہیں ناکامی کی صورت میں ان کا عہدوں پر رہنا محال نہ ہوجائے جیسا کہ میر سرفراز ڈومکی کے ساتھ ہوا تھا۔ دوسری بات یہ ہے کہ بلوچستان عوامی پارٹی کوئی منظم سیاسی جماعت نہیں بلکہ کہا یہ جاتا ہے بلوچستان عوامی پارٹی اسٹیبلشمنٹ کی بنائی گئی جماعت ہے جس کی باگ ڈور وہی سنبھال رہے ہیں اور اس جماعت میں مقتدر حلقوں کی مرضی کے خلاف کوئی بھی رکن کسی قسم کے فیصلے کا مجاز نہیں۔ اہم ترین بات یہ ہے کہ اس وقت وزیر اعلی جام کمال خان علیانی مقتدر حلقوں کیلئے کسی قسم کی پریشانی کا سبب نہیں لہذا عبدالقدوس بزنجو بظاہر کامیاب ہوتے دکھائی نہیں دیتے۔
بلوچستان کے حالات پر نظر رکھنے والے صحافیوں کے خیال میں میر عبدالقدوس بزنجو کا جام کمال سے اختلاف کی وجہ ضلع آوران سے تعلق رکھنے والے میر رحمین محمد حسنی ہیں جنہیں جام کمال نے اسپیشل اسسٹنٹ برائے وزیر اعلی تعینات کر رکھا ہے جو رشتے میں جام کمال کے پھوپھا زاد بھائی ہیں۔ میر قدوس بزنجو کا حلقہ انتخاب اور آبائی علاقہ آواران ہے۔ میر رحمین کے کہنے پر حالیہ دنوں میں آوران کی ضلعی انتظامیہ کو وزیر اعلی نے تبدیل کردیا ہے اور وزیر اعلی انسپکشن ٹیم ضلع آوران میں میر قدوس بزنجو کی ترقیاتی اسکیمات میں مبینہ خورد برد کی رپورٹ ترتیب دے چکی ہے جسے شائع ہونے سے روکنے کیلئے میر قدوس بزنجو وزیر اعلی جام کمال پر دباؤ ڈالنے کے تحریک عدم اعتماد لانے جیسے حربے استعمال کر رہے ہیں۔
وزیر اعلی سیکرٹریٹ کے ذرائع نے دعوی کیا ہے کہ جام کمال نے تنگ آمد بجنگ آمد کے مصداق فیصلہ کیا ہے کہ سپیکر بلوچستان اسمبلی میر قدوس بزنجو کے خلاف تحریک عدم اعتماد لائی جائے گی اور مقتدر حلقوں کو بھی اس حوالے سے اعتماد میں لیا گیا ہے۔ واقفان حال کا کہنا ہے کہ بلوچستان کے سینیئر سیاست دان سابق وزیر اعلی، سابق ڈپٹی چیئرمن سینیٹ اور سابق سپیکر جان محمد جمالی کو بلوچستان اسمبلی کا نیا سپیکر بنانے کیلئے اعتماد میں لیا گیا ہے۔
ذرائع کا یہ بھی دعوی ہے کہ اسپیکر قدوس بزنجو کے چچا میر عظیم جان بزنجو میدان میں آگئے ہیں جن کی کوشش ہوگی کہ اپنے بھتیجے کو عدم تحریک اعتماد سے بچا سکیں۔ انہوں نے جام کمال سے رابطہ بھی کیا ہے لیکن وزیر اعلی کی طرف سے کہا گیا ہے کہ اگر وہ اپنے بھتیجے کی وزیر اعلی کے خلاف آئندہ محاذ نہ کھولنے کی گارنٹی دیں گے تو اسپیکر کے خلاف ممکنہ عدم اعتماد کی تحریک کا فیصلہ واپس لیا جا سکتا ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button