بالآخر سپریم کورٹ کا قدیر خان کیس سننے کا فیصلہ


بالاخر نیوکلیئر سائنسدان ڈاکٹر عبدالقدیر کی قید تنہائی کے خلاف دائر کردہ درخواست کی سماعت کے لیے تاریخ مقرر ہوگئی ہے اور اب سپریم کورٹ کا بنچ نمبر ایک 16 جولائی کو اسے سنے گا۔
مشرف کے آمرانہ دور سے قید تنہائی کاٹنے والے ڈاکٹر عبد القدیر نے 10 جون 2021 کو اپنے کیس کی سماعت جلد مقرر کرنے کی درخواست دی تھی اور سپریم کورٹ کو یاد دلایا تھا کہ ان کی درخواست جولائی 2020 سے زیر التوا ہے۔ عبدالقدیر خان نے اس کیس میں حکومت پاکستان، سیکریٹری وزارت داخلہ اسلام آباد اور دیگر کو فریق بنایا ہے۔ ڈاکٹر عبد القدیر خان کے وکیل کرنل (ر) انعام الرحیم ایڈووکیٹ کے مطابق محسن پاکستان کہلانے والے نیوکلیئر سائنسدان ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے کیس کی آخری سماعت سپریم کورٹ نے گزشتہ برس 21 جولائی کو کی تھی جس کے بعد تقریبا ایک برس کا وقفہ ہو چکا تھا لیکن ان کی درخواست نہیں سنی جا رہی تھی چنانچہ قدیر خان نے 10 جون کو سپریم کورٹ کو یاددہانی کے لیے دوبارہ درخواست دائر کی۔ کرنل (ر) انعام الرحیم نے کہا کہ سیکورٹی کے نام پر ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو برس ہس برس سے عملاً قید تنہائی میں رکھا گیا ہے اور ان کے عزیز و اقارب اور دوست تک ان سے نہیں مل سکتے ۔ یہاں تک کہ ان کے وکلاء بھی تنہائی میں ان سے نہیں مل سکتے۔ انعام رحیم نے کہا کہ افسوس کی بات ہے کہ اسکے بر عکس بھارتی دہشت گرد جاسوس کلبھوشن یادیو جو سینکڑوں پاکستانیوں کا قاتل ہےاس کو انصاف دینے کے لیے آرمی ایکٹ میں 2 بارترمیم کی گئی یعنی دشمن جاسوس کی سہولت کے لیے قانون بدلا گیا لیکن محسن پاکستان کو بغیر کسی قانون کے مشرف دور سے قید تنہائی میں رکھا جا رہا ہے۔ کرنل انعام نے کہا کہ کلبھوشن یادیو تک اس کے اہل خانہ کو رسائی دی گئی لیکن محسن پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان نہ اپنی مرضی سے کوئی ملاقات کر سکتے ہیں اور نہ ہی اپنے گھر سے باہر جاسکتے ہیں۔ انکا کہنا تھا کہ قدیر خان کے وکیلوں کو بھی ان سے نہیں ملنے دیا جاتا۔
ڈاکٹر قدیر کے وکیل کرنل انعام الرحیم نے کہا کہ ظلم کی بات یہ ہے کہ پاکستان کو ایٹمی قوت بنانے والے سائنسدان کو 28 مئی کو یوم تکبیر کی کسی تقریب میں بھی نہیں جانے دیا جاتا۔ کرنل (ر) انعام الرحیم نے بتایا کہ ان کے ساتھی وکیل توفیق آصف کی جانب سے دائر درخواست میں سپریم کورٹ سے استدعا کی گئی تھی کہ چونکہ یہ بنیادی انسانی حقوق کا معاملہ ہے اس لیے اسکی فوری سماعت مقرر کی جائے۔ درخواست میں عدالت سے استدعا کی گئی کہ ان کو دوستوں اور رشتہ داروں سے ملنے کی اجازت دی جائے۔
خیال رہے کہ قدیر خان کو غیرقانونی طور پر جوہری ٹیکنالوجی کی ایران، لیبیا اور شمالی کوریا منتقلی کے الزام پر سابق پرویز مشرف کے دور میں چسرج شیٹ کرنے کے بعد اسلام آباد ہی میں ان کے گھر میں نظر بند کر دیا گیا تھا۔سابق فوجی صدر کی حکومت کے بعد ملک میں دو جمہوری حکومتیں اپنی مدت مکمل کر چکی ہیں اور تیسری ہائیبرڈ حکومت کی برسر اقتدار ہے لیکن اس عرصے کے دوران بھی عبدالقدیر کو نقل و حرکت کی اجازت نہیں ہے۔ پچھلے برس 21 جولائی کو اس کیس کی آخری سماعت کے دوران اٹارنی جنرل خالد جاوید خان نے سائنس دان کی جانب سے عدالت کو لکھے گئے خط کے الفاظ پر اعتراض اُٹھایا تھا۔ اُنھوں نے کہا کہ سپریم کورٹ میں جمع کروائے گئے خط میں اسلام آباد ہائی کورٹ کے بارے میں کہا گیا ہے کہ وہاں سے انصاف ملنے کی امید نہیں ہے۔ اٹارنی جنرل نے عدالت سے استدعا کی کہ اس خط کو قبول نہ کیا جائے تاہم عدالت نے اس سے اتفاق نہیں کیا اور ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے خط کو ریکارڈ کا حصہ بنا دیا۔ جسٹس یحییٰ آفریدی نے اٹارنی جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اگر اُنھیں خط کے متن پر اعتراض ہے تو وہ اس بارے میں درخواست دائر کرسکتے ہیں۔ تاہم اب ایک برس گزرنے کے بعد ڈاکٹر قدیر خان کی سنی گئی ہے اور عدالت نے 16 جولائی کے لیے ان کا کیس لگا دیا ہے۔

Related Articles

Back to top button