آزاد کشمیر کے جہادی رکن اسمبلی کا بھانڈہ پھوٹ گیا


تحریک انصاف کی ٹکٹ پر آزاد کشمیر اسمبلی میں علما کی مخصوص نشست پر رکن اسمبلی بننے والے مظہر سعید شاہ عرف مولانا عبداللہ شاہ مظہر نے ماضی میں طالبان اور دیگر جہادی تنظیموں کا حصہ رہنے کی سختی سے تردید تو کی لیکن بی بی سی نے ان کا سارا جہادی کچا چٹھا کھول کر سامنے رکھ دیا ہے۔ برطانوی نشریاتی ادارے کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ مولانا محمد مظہر سعید شاہ اپنے دوسرے نام مولانا عبداللہ شاہ مظہر کے حوالے سے ذیادہ جانے جاتے ہیں اور وہ اسی نام سے ماضی میں جیش محمد سندھ کے امیر بھی رہے ہیں۔ وہ متشدد جہادی کارروائیوں میں ملوث رہنے کی وجہ سے درجنوں مرتبہ سکیورٹی ایجنسیز کے ہاتھوں گرفتار بھی ہوئے۔ اس دوران وہ ایک واقعے میں شدید زخمی بھی ہوئے لیکن ان کی جان بچ گئی۔
یاد رہے کہ 46 سالہ مولانا محمد مظہر سعید شاہ تحریک انصاف کے اراکین کی حمایت سے آزاد کشمیر کی قانون ساز اسمبلی میں علما کی مخصوص نشست پر منتخب ہوئے ہیں۔ براہ راست منتخب ہونے والے 45 اراکین میں سے 27 نے ان کے حق میں ووٹ ڈالے جبکہ ان کے مدمقابل امیدوار کو 14 ووٹ ملے۔ تاہم انکے رکن اسمبلی بنتے ہی پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے انہیں طالبان کا ساتھی قرار دے دیا تھا۔ جواب میں مولانا موصوف نے اس الزام کی تردید تو نہیں کی لیکن بلاول کے خلاف سخت غصے کا اظہار کیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ’میرا مذہب،میرا دین، میرے ملک کا آئین اور اقوام متحدہ کا چارٹر مجھے میری آزادی کا تحفظ دیتا ہے۔ میں اپنی آزادی کے لیے پہلے بھی حریت کی بات کرتا رہا ہوں اور آئندہ بھی کرتا رہوں گا۔‘
مولانا پر الزامات اور ان کی وضاحت اپنی جگہ لیکن بی بی سی نے چند کالعدم تنظیموں کے سابق عہدیداروں سے بات چیت کر کے مولانا کی حقیقت جاننے کی کوشش کی۔ مظفرآباد میں مقیم کالعدم جماعت حرکت الانصار سے وابستہ ایک سابق عہدیدار نے بتایا کہ ’مظہر سعید شاہ جیش محمد سمیت مختلف کالعدم تنظیموں سے وابستہ رہے ہیں مگر انھوں نے مقبوضہ کشمیر جا کر کبھی مسلح جدوجہد میں حصہ نہیں لیا۔ ان کا کہنا تھا کہ مظہر شاہ جہادی تنظیموں کے انتظامی امور سے وابستہ رہے اور زیادہ وقت کراچی میں گزرا جبکہ افغانستان میں طالبان سے اب تک ان کے گہرے روابط رہے ہیں اور اس سلسلے میں ان کا افغانستان آنا جانا رہا ہے۔ یاد رہے کہ مظہر سعید شاہ نے طالبان سے تعلق کی تردید کی تھی۔ کالعدم تنظیم کے سابق عہدیدار نے بتایا کہ ’مظہر سعید شاہ 1999 کے بعد کراچی میں دینی و عصری تعلیم مکمل کرنے کے بعد سب سے پہلے کالعدم جہادی تنظیم حرکت الانصار سے وابستہ ہوئے، بعدازاں سرگرم رکن ہونے پر وہ کراچی میں تنظیم کے امیر سمیت اہم عہدے پر فائز رہے۔‘ ان کے مطابق ’مظہر سعید کے جیش محمد کے بانی مولانا مسعود اظہر سے قریبی تعلقات تھے۔ جب مسعود اظہر کے 2001 میں اپنی جماعت کے ساتھ اختلافات ہوئے اور انھوں نے حرکت الانصار چھوڑ کر نئی تنظیم جیش محمد بنائی تو مظہر سعید شاہ بھی مسعود اظہر کے ہمراہ جیش محمد میں شامل ہو گئے۔‘ مظہر سعید کالعدم جیش محمد سندھ کے امیر بھی رہے مگر مسعود اظہر کے ساتھ ان کی رفاقت زیادہ نہ چل سکی۔
جیش محمد میں مسعود اظہر سے اختلافات کی بنیاد پر کالعدم جہادی تنظیم 2011 میں تقسیم کا شکار ہو گئی اور ایک نیا دھڑا ’تحریک الفرقان‘ کے نام سے سامنے آیا۔ جیش محمد کے مولانا مسعود اظہر اور مظہر شاہ کے اختلافات کا سلسلہ ختم نہ ہوا اور مظہر سعید شاہ نے ’تحریک غلبہ اسلام‘ کے نام سے اپنی الگ جماعت قائم کر لی۔ مولانا مظہر نے آٹھ اکتوبر 2005 کے زلزلے میں اپنے قائم کردہ ایک ٹرسٹ کے تحت رفاعی کام بھی کیا جس پر بعد میں پابندی عائد کر دی گئی تھی۔ 2012 میں سیالکوٹ میں مظہر شاہ سمیت ان کے دیگر ساتھیوں پر حملہ بھی ہوا تھا جس میں وہ شدید زخمی ہوئے تھے۔ کہا جاتا ہے کہ یہ واقعہ مبینہ طور پر کالعدم جہادی تنظیموں میں اختلافات کے بنا پر رونما ہوا۔ سندھ میں حرکت الانصار کے ایک سابق امیر نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا کہ ’مولانا مظہر سعید شاہ کا زمانہ طالب علمی پھر جہادی تنظیموں میں آنے سے ابتک کا سفر میرے آنکھوں کے سامنے ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ جہادی تنظیموں میں مختلف عہدوں اور ذمہ داریوں پر فائز رہے مگر ان کا بنیادی کام دعوت و ارشاد اور مالیاتی امور کی نگرانی کا تھا۔ انھوں نے بتایا کہ افغانستان سمیت پاکستان میں جہادی تنظیموں میں ان کے روابط کا ایک بنیادی ذریعہ کمانڈر مولوی عبدالجبار بھی تھے جو ان کے قریبی ساتھی تھے اور جو ان کی جماعت تحریک غلبہ اسلام کا حصہ بھی رہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ مولانا مظہر سعید افغانستان میں طالبان دور حکومت میں کسی عہدے پر تو فائز نہیں رہے البتہ انکے طالبان سے اچھے تعلقات تھے۔ لیخن مولانا مظہر کے قریبی دوست مولوی عبدالجبار طالبان دور میں ایک ضلع کے کمانڈر تھے۔
2019 میں کالعدم تنظیموں پر کریک ڈاؤن کے دوران مولانا مظہر شاہ کو بھی کراچی سے حراست میں لیا گیا تاہم کچھ عرصہ بعد انھیں چھوڑ دیا گیا۔ اس دوران ان کے زیر سایہ چلنے والے مدرسوں کو سندھ حکومت نے اپنی تحویل میں لے لیا تھا۔ مولانا مظہر سعید کے قریبی عزیزوں کے مطابق ان کو متعدد بار سکیورٹی اداروں نے اپنی تحویل میں لیا مگر کچھ عرصہ بعد ان کو رہا کر دیا جاتا۔
دودری جانب مظہر سعید شاہ المعروف عبداللہ شاہ مظہر کا کہنا ہے کہ انکا گھرانہ برطانوی دور سے سیاسی و مذہبی طور پر پاکستان اور انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں خاص اہمیت رکھتا ہے۔ ان کا تعلق کشمیر کے معروف شاعر، مصنف اور مذہبی سکالر انورا شاہ کشمیری سے ہے جبکہ ان کے نانا مولانا غلام مصطفیٰ شاہ مسعودی مہاراجہ کشمیر کے دور میں متحدہ کشمیر اسمبلی کے مظفرآباد سے رکن رہ چکے ہیں۔ مولانا غلام مصطفیٰ کے چچازاد بھائی سعید مسعودی نیشنل کانفرنس کے سربراہ شیخ عبداللہ کے سیکرٹری جنرل تھے جن کا خاندان انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں مقیم ہے۔ خود مظہر شاہ 1975 میں کراچی میں پیدا ہوئے، انھوں نے شرف آباد گورنمنٹ ہائی سکول سے میڑک اور بعدازاں کراچی کے ایک کالج سے ایف ایس سی کی۔ ایف ایس کے بعد ناظم آباد میں مولانا عبدالرشید کے مدرسے سے درس نظامی کے پہلے سال کی تعلیم حاصل کی اور سنہ 1999 میں آٹھ سالہ درس نظامی کا کورس جامعہ عربیہ احسن العلوم سے مولانا زرولی خان سے مکمل کیا جبکہ حدیث کی تعلیم مفتی تقی عثمانی، مولانا سرفراز خان صفدر اور مولانا ڈاکٹر شیر علی شاہ سے حاصل کی۔ درس نظامی کے دوران 1997 میں کراچی یونیورسٹی سے گریجویشن کی اور یہاں ہی سے 2005 میں ایم اے اسلامیات کی ڈگری حاصل کی۔ مظہر سعید شاہ کے مطابق اب وہ فیڈرل یونیورسٹی میں ایم فِل لیڈنگ ٹو پی ایچ ڈی کے طالب علم ہیں۔ مولانا مظہر شاہ مسعودی کا تعلق لائن آف کنٹرول کے قریبی علاقے لوات بالا سے ہے۔

Back to top button