کیا کپتان نے فردوس عاشق کے ساتھ بھی ہاتھ کردیا؟


معلوم ہوا ہے کہ وزیر اعلی پنجاب کے معاون خصوصی کے عہدے سے فارغ کی جانے والی بونگی آنٹی فردوس عاشق اعوان کے ساتھ ہاتھ ہوگیا ہے۔ بتایا گیا ہے کہ فردوس عاشق اعوان سے مرکز میں معاون خصوصی کا عہدہ دینے کے عوض استعفی لیا گیا تھا لیکن اب نہ تو انہیں وفات میں کوئی عہدہ دیا جا رہا ہے اور نہ ہی وزیراعظم عمران خان ان سے ملاقات کرنے پر آمادہ ہیں۔ اسی لیے اب فردوس عاشق اعوان پر اتنا برا وقت آگیا ہے کہ نہ تو انہیں پنجاب اسمبلی میں گھسنے دیاگیا اور نہ ہی عمران خان نےا نہیں ملاقات کا وقت دیا، جس سے یہ تاثر مضبوط ہورہا ہے کہ کپتان نے بونگی آنٹی کے ساتھ ہاتھ کردیا ہے۔
یاد رہے کہ فردوس عاشق لائیو ٹی شوز میں مردو خواتین سیاست دانون کے ساتھ بد تمیزی اور انہیں گالیاں دینے کے حوالے سے بدنام ہیں۔ موصوفہ اتنی بد زبان ہیں کہ جب پیپلزپارٹی میں تھیں تو ایک ٹی وی پروگرام میں ایم این اے کشمالہ طارق کو ایک سیاست دان کی داشتہ قرار دے دیا تھا۔ اسکے علاوہ وہ اپنی سیاسی وفاداریاں بدلنے کے حوالے سے بھی بد نام ہیں اور کئی سیاسی جماعتوں کا حصہ رہ چکی ہیں۔ ماضی میں وہ قاف لیگ کے علاوہ پیپلز پارٹی کا حصہ بھی رہ چکی ہیں اور یوسف رضا گیلانی کی کابینہ میں وزیر تھیں۔ 25 دسمبر 2011 کو جب یوسف رضا گیلانی کی زیر صدارت وفاقی کابینہ کا اجلاس جاری تھا تو چلتے اجلاس میں فردوس عاشق دھاڑیں مار کر رونے لگیں، یہ بالکل اسی طرح تھا جس طرح الطاف حسین عمران فاروق کے قتل کے بعد ٹی وی کیمروں کو بلا کر روئے تھے، فردوس عاشق نے کابینہ میں رونے سے پہلے یہ ڈرامہ براہ راست پی ٹی وی پر چلانے کا بھی پورا بندوبست کر لیا تھا تاکہ ان کی مظلومیت پر لوگ یقین کر لیں۔ لیکن انہیں کابینہ سے فارغ کر دیا گیا۔
موصوفہ بونگیاں مارنے کی بھی ماہر ہیں۔ گذشتہ برس ایک سرکاری دورے میں بونگی آنٹی نے ایک دکان پر کھڑی گھریلو خاتون سے بھی بچوں کے حوالے سے گندا مذاق کیا تھا۔ حال ہی میں انہوں نے ایک ٹی وی پروگرام میں پیپلزپارٹی کے ایم این اے عبدالقادر مندوخیل کو تھپڑ جڑ دیا۔ اینکر منصور علی خان کے بقول بونگی آنٹی نے مسلم لیگ نواز کے رہنما میاں جاوید لطیف کو بھی ایک پروگرام میں جوتا مارنے کی کوشش کی تھی۔ مندوخیل سے لڑائی سے پہلے یہ غیر منتخب خاتون سیالکوٹ کی اسسٹنٹ کمشنر سے صرف الجھی ہی نہیں تھیں بلکہ اس کی بیچ بازار تضحیک کی تھی، یہ سب کچھ کیمروں کے سامنے ہوا۔ تب یوں لگا تھا کہ جیسے فردوس سیالکوٹ کی رانی اور ضلعے کے تمام افسران ان کے غلام ہیں، اس موقعے پر شاید کسی نے درست کہا تھا کہ فردوس اعوان دراصل فرسٹریشن اور ڈپریشن کی ایک زندہ مثال ہیں۔
فردوس عاشق سے استعفیٰ لیتے وقت وعدہ تو کیا گیا تھا کہ ان کو مرکز میں کوئی اہم عہدہ دے دیا جائے گا لیکن اب انہیں اس سے بھی جواب مل گیا ہے اور اسی لئے انہیں 9 اگست کو پنجاب اسمبلی میں بھی گھسنے کی اجازت نہیں دی گئی، یعنی بہت بے آبرو ہوکر تیرے کوچے سے ہم نکلے،،، پیپلز پارٹی چھوڑ کر پی ٹی آئی میں آنے والی فردوس عاشق اعوان ہر جھوٹ کو سچ کی طرح بولنے کا فن بخوبی جانتی ہیں اور ہر چیز کا الزام دوسروں پر لگانے کی بھی ماہر ہیں، لیکن اب یوں لگتا ہے کہ موصوفہ کے برے دن شروع ہو گئے ہیں۔ عہدے کے نشے میں چور فردوس عاشق کبھی کسی کو سیریس نہیں لیتی تھیں لیکن جب ان کے برے دن آئے تو انہیں پنجاب اسمبلی میں تحریک انصاف کے نو منتخب ایم پی اے احسن سلیم بریار کی تقریب حلف برداری میں بھی جانے سے روک دیا گیا۔ 9 اگست کو وزیراعظم عمران خان بھی خیر سے لاہور کے دورے پر آئے ہوئے تھے، پنجاب اسمبلی میں تاریخی بے عزتی کے بعد فردوس نے کپتان سے ملاقات کیلئے بھی کئی جتن کئے لیکن کسی نے بھی فردوس عاشق اعوان کو عمران خان سے ملنے نہیں دیا۔ بتایا جاتا ہے کہ پنجاب اسمبلی سے دھتکارے جانے کے بعد فردوس عاشق عمران خان سے ملاقات کیلئے گورنرہاؤس کی انتظارگاہ میں منتظر رہیں۔ عمران خان گورنرہاؤس کے کمرے سے نکلے تو فردوس عاشق نے ملاقات کی کوشش کی لیکن سکیورٹی اہلکاروں نے فردوس عاشق اعوان کو ملاقات سے روک دیا۔ پھر جب عمران خان گراؤنڈ میں ہیلی کاپٹر کی طرف جارہے تھے تو فردوس عاشق عوان سیکورٹی حصار توڑتے ہوئے عمران خان کے قریب پہنچی۔ جب عمران خان واپسی کے لئے ہیلی کاپٹر کی طرف جارہے تھے تو فردوس عاشق اعوان نے ان سے ملاقات کی۔عمران خان نے فردوس عاشق اعوان کے پاس کھڑا ہونا بھی مناسب نہیں سمجھا اور چلتےچلتے فردوس عاشق اعوان کا مؤقف سُنا۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ فردوس عاشق نے شکوہ کیا کہ میرے ساتھ پنجاب میں ذیادتی کی گئی ہے؟ اس پر عمران خان نے جواب دیا کہ آپ کو بہتر پتا ہوگا، میں نے توپہلے ہی آپ کو بڑی مشکل سے وفاق سے پنجاب بھجوایا تھا لیکن آپ نے وہاں بھی لوگوں کو ناراض کر دیا۔
ناقدین کا کہنا ہے کہ دوسروں کی تذلیل کرنے اور ان پر جھوٹے الزام لگانے والی فردوس عاشق اعوان وفاقی حکومت سے خوار ہو کر پہلے تو پنجاب پہنچ گئی تھیں لیکن اب یہاں سے رسوا ہو کر نجانے کہاں جائیں گی ۔

Related Articles

Back to top button