تمام ادارے صرف مراعات یافتہ طبقے کیلیے کام کررہے ہیں

 چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے کہ تمام ادارے صرف مراعات یافتہ طبقے کے لیے کام کر رہے ہیں۔چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ جسٹس اطہر من اللہ نے وفاقی دارالحکومت میں کچی آبادیوں سے متعلق کیس پر سماعت کی، سی ڈی اے کی جانب سے کچی آبادی کے مکینوں کی آبادکاری کی رپورٹ عدالت میں پیش کی گئی۔

سی ڈی اے کے وکیل نے کہا کہ متاثرین کو علی پور فراش میں پلاٹس دے رہے ہیں، ماڈل شیلٹر پراجیکٹ بنایا ہے اور چار آبادیوں کو وہاں پلاٹس بھی دیے ہیں، نالہ کورنگ کے کنارے بھی کچھ لوگوں نے غیر قانونی رہائش اختیار کر رکھی ہے، برسات میں سیلاب کی خدشے کے پیش نظر نالے کے بیڈ پر بیٹھنے والوں کو علاقہ چھوڑنے کا نوٹس دیا، جب بھی انفورسمنٹ والے جاتے ہیں یہ لوگ اسلحہ لے کر آ جاتے ہیں۔

چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے ریمارکس دیئے کہ آئینی عدالت کا کام کمزور طبقوں کے بنیادی حقوق کا تحفظ کرنا ہے، قانون کی نظر میں طاقتور اور کمزور سب برابر ہیں، آپ آئینی عدالت کے سامنے ہیں، پہلے یہ بتائیں کہ سی ڈی اے نے اپنی ذمہ داریاں کیوں نہیں نبھائیں؟ اگر سسٹم صحیح چل رہا ہو تو تجاوزات نہیں ہو سکتیں، ای الیون میں نالے پر تعمیرات سے تباہی ہو گئی، قانون کے نفاذ میں ناکامی پر کس کو ذمہ دار ٹھہرائیں اور کس کے خلاف کارروائی کریں؟

جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے کہ آپ کو یقینی بنانا تھا کہ کوئی غیر قانونی تعمیر نا ہو، جو لوگ نالوں کے کنارے آباد ہیں یہ تو ان کی اپنی سیفٹی کے لیے بھی خطرہ ہے، کل کو خدانخواستہ سیلاب آ گیا تو کون ذمہ دار ہو گا؟ تمام ادارے صرف مراعات یافتہ طبقے کے لیے کام کر رہے ہیں، آپ نے صرف چند افراد کو فائدہ پہنچانے کے لیے سارا سسٹم کرپٹ کر دیا ہے۔

اس دارالحکومت میں قانون کی حکمرانی کیسے ہو گی؟ کیا اسلام آباد عوام کے لیے ہے یا صرف مراعات یافتہ لوگوں کے لیے؟ عدالت نے واضح کیا ہے کہ صرف بڑے آدمی کی چیز کو ریگولرائز نا کریں، بلا تفریق قانون کا نفاذ کریں، 2017 کے عدالتی فیصلے پر عمل درآمد ہوتا تو ای الیون میں نالے پر تعمیرات سے تباہی نا آتی،اگر آپ کو کوئی ایکشن لینا ہے تو کسی امتیازی سلوک کے بغیر لیں۔

اسلام آباد ہائی کورٹ نے کچی آبادیوں کا سروے کر کے رپورٹ جمع کرانے کا حکم دیتے ہوئے کیس کی مزید سماعت 22 ستمبر تک ملتوی کر دی۔

Related Articles

Back to top button