سیاستدانوں کو غدار قرار دینے کا سلسلہ کیوں ختم نہیں ہوتا؟


پاکستان کو وجود میں آئے سات دہائیوں سے زیادہ کا عرصہ بیت چکا۔ اس دوران ملک کی اصل حکمران یعنی فوجی اسٹیبلشمنٹ کی ریاستی پالیسیاں بار بار بدلتی رہیں۔ پہلے روس کے خلاف افغان جنگ میں امریکہ کا ساتھ دینے کے لیے پاکستان میں جہادی فیکٹریوں لگائی گیئں۔ پھر نائن الیون کے حملوں کے بعد امریکہ سے مل کر ان جہادی فیکٹریوں کو بند کرنے کے لئے بار بار فوجی آپریشن کیے گئے۔ تاہم پچھلی سات دہائیوں میں جو پاکستانی فیکٹری مستقل مزاجی سے چلتی رہی اور اس کی پیداواری صلاحیت میں مسلسل اضافہ ہوا وہ غداری کے سرٹیفیکیٹ بنانے کی فیکٹری ہے۔
پاکستان میں نام نہاد ریاستی مفاد سے مختلف سوچ رکھنے والے محب وطن عناصر کو غدار قرار دینے کی روش کوئی نئی نہیں۔ قیام پاکستان سے لیکر آج تک نہ جانے کتنے ہی محب وطن آزاد ذہن اور جمہوریت پسند غدار قرار دیئے گئے ہیں۔ سات دھائیوں سے چلنے والی پاکستان کی غدار فیکٹری ابھی تک بانجھ نہیں ہوئی بلکہ اس کی پیداوار میں گزرتے وقت کیساتھ پہلے سے کہیں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔
لیکن قوموں کی تاریخ بتاتی ہے کہ جس دیس میں غدار فیکٹری کی پیداوار میں مسلسل اضافہ ہوتا جائے وہ ملک انٹلکچیولی بانجھ ہوجاتے ہیں۔ مشرقی پاکستان کے ہر دلعزیز لیڈر شیخ مجیب الرحمان کو غدار قرار دیئے جانے سے پہلے ہی مملکت خدادا میں غدار فیکٹری قائم ہوگئی تھی۔ تاہم سانحہ مشرقی پاکستن کے بعد اس فیکٹری کی پیداوار میں بے پناہ اضافہ ہوا۔ آج لاتعداد سیاسی، صحافتی اور قوم پرست غدار یا تو ماوارائے عدالت مارے جاچکے ہیں، یا جلاوطن کردیے گے جبکہ کئی ایسے ہیں جنہیں دیس نکالا دینے کی تیاری کی جارہی ہے۔ غداری کا تمغہ اپنے سینوں پر سجانے والوں میں اکثریت باضمیر قوم پرستوں اور آزاد خیال سیاستدانوں اور صحافیوں کی ہے۔
ایوب خان کے دست راست الطاف گوہر کے بقول جس وقت بھارت سے مل کر مشرقی پاکستان کی علیحدگی کی سازش کے الزام میں اگر تلہ کیس کے کرداروں کی پکڑ دھکڑ شروع ہوئی تو شیخ مجیب الرحمان پہلے ہی سے جیل میں تھے مگر بّری فوج کے سربراہ یحییٰ خان مصر تھے کہ مجیب کا نام بھی ملزمان کی لسٹ میں ڈالا جائے۔ الطاف گوہر کے بقول مجیب کا نام ایوب خان کے کہنے پر ملزموں کی ابتدائی فہرست سے نکال دیا گیا مگر پھر شامل کر لیا گیا۔ اس مقدمے نے مجیب کو بنگالیوں کا ہیرو بنا دیا۔
ایوب خان کے خلاف تحریک نے زور پکڑا تو بعد از خرابی بسیار 19 فروری 1969 کو اگرتلہ کیس نہ صرف واپس لے لیا گیا بلکہ مجیب کی سیاسی بحالی بھی کرنا پڑی۔ مشرقی پاکستان کے سابق گورنر وائس ایڈمرل (ریٹائرڈ) محمد احسن خے مطابق بعد از انتخابات ’28 فروری 1971 کو میں نے شیخ مجیب کو بلایا۔ شیخ نے پوچھا کہ کیا اسمبلی کا اجلاس غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی ہونے جا رہا ہے۔ میں نے کہا خدشہ یہی ہے تاہم یہ مختصر مدت کے لیے ہوگا ۔ لیکن مجیب نے کہا کہ اسے یقین نہیں۔ پاکستانی حکام اسے تباہ کرنا چاہتے ہیں اور پاکستان کو بھی سلامت نہیں رکھنا چاہتے۔ لیکن تاریخ فیصلہ کرے گی کہ اس تباہی کا الزام کس پر دھرا جائے۔
جب 1946 میں ہندوستان کی عبوری کابینہ بنی تو جناح صاحب نے جن پانچ مسلم لیگی وزرا کے نام وائسرائے لارڈ ویول کو بھجوائے ان میں دلت سیاستداں جوگندر ناتھ منڈل کا نام بھی تھا۔ یہ منڈل ہی تھے جنھوں نے سلہٹ کے ریفرینڈم میں دلتوں کے ووٹ پڑوا کے سلہٹ کو پاکستان میں شامل کروایا۔11 اگست 1947 کو کراچی میں پاکستان کی دستور ساز اسمبلی کے پہلے اجلاس کے صدر بھی جوگندر ناتھ منڈل تھے۔ وہ پہلی کابینہ میں قانون اور محنت کے وزیر رہے۔ جناح صاحب کی وفات کے بعد قرار دادِ مقاصد کی منظوری سے منڈل صاحب اقلیتوں کے مستقبل کے بارے میں دل شکستہ ہونے کے باوجود حکومت کا حصہ رہے۔
پیر علی محمد راشدی ‘رودادِ چمن’ میں لکھتے ہیں کہ چوہدری محمد علی جب پاکستانی بیورو کریسی کے سکریٹری جنرل بنے تو انھوں نے نجی محفلوں میں وزیرِ قانون کی ‘پاکستانیت’ پر شبہہ ظاہر کرنا شروع کردیا اور اہم فائلیں وزیرِ قانون کے ملاحظے کے لیے بھیجنا بند کردیں۔ منڈل نے وزیرِ اعظم لیاقت علی خان کو ایک خط لکھا اور پھر کابینہ سے استعفیٰ دے دیا۔چند دن بعد منڈل صاحب خاموشی سے کلکتہ منتقل ہوگئے اور 1968 میں خاموشی سے چل بسے۔ اس دوران کسی پاکستانی کو توفیق نہ ہوئی کہ منڈل صاحب کو منانے کی ایک بار بھی کوشش کرتا۔
کسی سرکاری شخصیت کو توفیق نہ ہوئی کہ ساحر لدھیانوی، بڑے غلام علی خان یا قرۃ العین حیدر سے پوچھ لیتا پاکستان چھوڑ کے بھارت کیوں جا رہے ہو۔ رک جاؤ نا۔ دل شکستہ مت ہو۔ اس ملک کو تمہاری بہت ضرورت ہے۔ منٹو یہی طے کرتا کرتا مر گیا کہ رہوں کہ نہ رہوں۔۔۔ بعض لوگوں نے بہت کوشش کی کہ حسین شہید سہروردی اور فیض صاحب بھی پاکستان سے مستقل بوریا بستر لپیٹ لیں مگر دونوں کی قوم پرستانہ ڈھٹائی آڑے آتی رہی۔ غفار خان کو بعد از مرگ جلال آباد میں دفن ہونے کے بعد اشرافیہ نے جبری پاکستانی کے طور پر قبول کر لیا۔جی ایم سید اور نواب خیر بخش مری اور اجمل خٹک کے ساتھ بھی یہی ہوا کہ غدار کہا پھر گلدستہ پیش کیا اور پھر غدار کہا۔ اب ان کی قبر پر چادر چڑھانے کی اجازت ہے مگر اکبر بگٹی کی قبر پر نہیں۔
آج بھی بلوچستان، قبائلی علاقوں اور سندھ کے قوم پرستوں کو غدار قرار دے کر قومی سیاست کو ان کے لئے شجر ممنوعہ بنانے کا سلسلہ جاری ہے۔ اب تبدیلی یہ آئی ہے کہ غدار فیکٹری میں سیاست دانوں کے علاوہ دانشوروں، صحافیوں، ادیبوں، شاعروں، فنکاروں حتیٰ کہ مذہبی شخصیات کے سینوں پر بھی غداری کے تمغے سجا دیئے ہیں۔
افسوس کی بات ہے کہ پاکستان کا پہلا منتخب وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو بھی غدار قرار دیا گیا اور پھانسی چڑھا دیا گیا۔ پھر اس کی بیٹی بے نظیر بھٹو کو بھی غدار قرار دیکر راولپنڈی کی ایک سڑک پر شہید کردیا گیا۔
تاہم تاریخ کا سب سے کڑوا سچ یہ ہے کہ آج دن تک پاکستان میں اگر کسی شخص کو ٹرائل کے بعد قانونی طور پر پاکستان کی کسی عدالت نے ملک کا آئین پامال کرنے کے جرم میں آرٹیکل 6 کے تحت غدار قرار دیا ہے تو اس کا نام ہے جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button