تنازعات ختم کرنے والی عدلیہ خود تقسیم ہو گئی

چیف جسٹس سپریم کورٹ کے اختیارات محدود کرنے سے متعلق عدلیہ اصلاحاتی بل کی مظوری کے بعد اب از خود نوٹس اور بینچوں کی تشکیل کا فیصلہ ایک کمیٹی کرے گی، جس میں چیف جسٹس اور دو سینیئر ترین جج شامل ہوں گے۔اس سے قبل یہ اختیار سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کے پاس ہوا کرتا تھا۔یہ بل ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب ملک میں سیاسی تناو کو ختم کرنے کے لیے تمام نگاہیں سپریم کورٹ کی جانب ہیں تاہم ملک کی سب سے بڑی عدالت کے اندر ججوں کے درمیان اختلاف رائے بھی سامنے آ رہا ہے۔اس کی ایک مثال الیکشن التوا کیس میں عدالتی بینچ میں شامل ججوں کی جانب سے اختلاف تھا اور یہی وجہ ہے کہ اس بل کی ٹائمنگ پر سوالات اٹھائے جا رہے ہیں۔جہاں پی ٹی آئی کی جانب سے اس بل کی منظوری کی ٹائمنگ پر سوالات اٹھائے گئے ہیں، وہیں حکومت کا دعویٰ ہے کہ اس بل کا مقصد چیف جسٹس کے اختیارات کو محدود کرنا نہیں بلکہ اس حوالے سے مراحل کا تعین کرنا ہے۔

یاد رہے کہ چیف جسٹس سپریم کورٹ کے ازخود نوٹس لینے کے اختیارات کو محدود کرنے کے حوالے سے آوازیں سپریم کورٹ کے اندر سے بھی اٹھائی جا رہی ہیں۔اس کی تازہ ترین مثال گذشتہ روز جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں تین رکنی بینچ کے اکثریتی فیصلے میں ملتی ہے۔جسٹس فائز عیسیٰ اور جسٹس محمد امین کے اکثریتی فیصلے میں کہا گیا کہ جب تک عدالتی ضوابط تشکیل نہیں دیے جاتے تب تک چیف جسٹس کی جانب سے آئین کے آرٹیکل 184/3 کے تحت لیے گئے از خود نوٹسز سے متعلق تمام مقدمات کی سماعت ملتوی کر دی جائے۔

اس سے قبل، صوبائی اسمبلی کے انتخابات پر لیے گئے ازخود نوٹس کیس میں سب سے پہلے جسٹس اطہر من اللہ کی جانب سے اس بارے میں اعتراضات سامنے آئے تھے۔اپنے نوٹ میں انھوں نے کہا تھا کہ ’اس عدالت کی آئین کی تشریح کے عام لوگوں اور آنے والی نسلوں پر اثرات ہیں، از خود نوٹس کے اختیار کا استعمال انتہائی احتیاط کا متقاضی ہے، چیف جسٹس کے از خود نوٹس کے اختیار کی آئینی تشریح بھی ضروری ہو گئی ہے۔‘
جسٹس منصور علی شاہ کی جانب سے بھی ایک نوٹ میں چیف جسٹس کی جانب سے صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات سے متعلق ازخود نوٹس لینے کے فیصلے پر تحفظات کا اظہار کیا تھا۔اسی طرح جسٹس جمال خان مندوخیل نے اپنے اختلافی نوٹ میں لکھا تھا کہ ’ایسی صورتحال میں آئین کے آرٹیکل 184 تھری کے تحت از خود نوٹس لینے کے لیے معاملہ چیف جسٹس آف پاکستان کو ریفر کرنا مناسب نہیں۔

گذشتہ ایک دہائی سے بھی زیادہ عرصے کے دوران پاکستان میں سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کی جانب سے اس اختیار کا استعمال کیا گیا، جو اکثر متنازع بھی رہا۔تاہم کیا وجہ ہے کہ گذشتہ چند ماہ کے دوران چیف جسٹس کے سوموٹو لینے کے اختیار کے بارے میں نہ صرف عدلیہ کی جانب سے تحفظات کا اظہار کیا گیا بلکہ حکومت نے بھی اس بارے میں ایک بل پاس کر دیا ہے۔تاہم سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آئین کا آرٹیکل ایک سو چوراسی تین کیا ہے؟ قانونی ماہرین کے مطابق آئین کے آرٹیکل 184/3 کے تحت سپریم کورٹ کو کسی بھی ایسے واقعے سے متعلق از خود نوٹس لینے کا اختیار حاصل ہے جو یا تو مفاد عامہ کا معاملہ ہو یا پھر جہاں پر بنیادی حقوق پامال ہو رہے ہوں۔

بیرسٹر صلاح الدین احمد نے بتایا کہ اس سلسلے میں سپریم کورٹ کو کسی ہائیکورٹ کے فیصلے کا انتظار نہیں کرنا پڑتا اور وہ براہ راست فیصلہ دے سکتی ہے۔’آغاز میں اس کی تشریح یہ سمجھی جاتی تھی کہ کوئی درخواست گزار سپریم کورٹ جائے اور پھر اس کی پٹیشن پر سپریم کورٹ فیصلہ دے تاہم سنہ 1990 کے قریب سپریم کورٹ نے اس حوالے سے تشریح تبدیل کی اور ازخود نوٹس کے تحت ہی سماعت کرنا شروع کر دی۔‘
بیرسٹر صلاح الدین نے بتایا کہ اس میں دونوں قسم کے کیس ہوتے ہیں ایک وہ جس میں کوئی درخواست گزار پٹیشن لے کر جائے اور دوسرا وہ جس میں ازخود نوٹس لیا جاتا ہے ۔سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری کے دور سے قبل چیف جسٹسز کی جانب سے اس اختیار کا استعمال کم کیا جاتا تھا، تاہم افتخار چوہدری کے دور میں متعدد متنازع ازخود نوٹس لیے گئے تھے۔ان کے دور کے بعد جسٹس ثاقب نثار کے دور میں متنازع سوموٹو نوٹسز لیے گئے جس کی وجہ سے چیف جسٹس کا یہ اختیار متنازع ہوا۔

ایک جانب جہاں سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف کے خلاف پانامہ لیکس کا معاملہ تھا جس کے بارے میں پہلے تو سپریم کورٹ نے موجودہ وزیر اعظم عمران خان کی طرف سے دائر کی گئی درخواستوں کو غیر ضروری قرار دے کر ناقابلِ سماعت قرار دے دیا تھا، لیکن بعد میں ان درخواستوں کو از خود نوٹس میں تبدیل کردیا تھا۔دوسری جانب سپریم کورٹ کی تاریخ میں اداکارہ عتیقہ اوڈو کے کیس میں ایک شراب کی بوتل پر بھی از خود نوٹس لیا گیا۔اس اختیار کی وجہ سے مفاد عامہ کے کئی معاملات میں عدالتی مداخلت کو سراہا بھی گیا ہے۔اس وقت جہاں عدالتی اصلاحات بل پر بات ہو رہی ہے وہیں یہ بات بھی کی جا رہی ہے کہ اس بارے میں اچانک عدلیہ اور حکومت کی جانب سے بات کرنے کا مطلب کیا ہے۔

بیرسٹر صلاح الدین احمد نےکہا کہ ’اس حوالے سے شروعات تو بہت پہلے ہو چکی تھی۔ سپریم کورٹ کے مختلف جج شکایت کر چکے ہیں کہ ہمیں اہم کیسز سے علیحدہ کیا جاتا ہے اور یہ آوازیں بڑھتی گئیں اور پھر پنجاب اسمبلی الیکشن میں ججوں کے نوٹس میں بھی اس بات کا کھل کر اظہار کیا گیا۔‘انھوں نے کہا کہ ’یا تو سپریم کورٹ اس کو خود حل کر سکتا تھا، سپریم کورٹ کے رولز میں اس حوالے سے ترمیم کی جا سکتی تھی اور ایک فل کورٹ بلا کر اس بارے میں آرٹیکل 199 اور 191 کے تحت رولز میں ترمیم کی جا سکتی تھی۔’لیکن پچھلے چار سال سے سپریم کورٹ نے کوئی فل کورٹ میٹنگ ہی کال نہیں کی۔ اس بارے میں سابق چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے فل کورٹ بنا کر آرٹیکل 184/3 سے متعلق چیف جسٹس کے اختیارات پر نظرِ ثانی کرنے اور سپریم کورٹ کے رولز میں ترمیم کرنے کے حوالے سے بات کی تھی لیکن وہ ایسا کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکے تھے۔خیال رہے کہ گذشتہ کئی سال سے پاکستان کی سیاسی جماعتوں کی جانب سے کہا جاتا رہا ہے کہ کچھ ججز ان کے خلاف یا ان کے مخالف کی حمایت کرتے ہیں۔

بیرسٹر صلاح الدین کے مطابق ’ایسی صورت میں فل کورٹ بنا کر ایسے کیسز کے فیصلے کیے جا سکتے ہیں جو سیاسی نوعیت کے ہوں۔‘جسٹس فائز عیسیٰ کی سربراہی میں بینچ کے فیصلے کے بارے میں بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ’میں نہیں سمجھتا کہ یہ کوئی براہ راست فیصلہ ہے کیونکہ سپریم کورٹ کے بینجز ایک دوسرے کے خلاف فیصلے نہیں دیتے۔ لیکن یہ اس بات کا اشارہ ضرور ہے کہ عدلیہ میں اس بارے میں سنگین اختلاف موجود ہے کہ آرٹیکل 184/3 کے تحت نوٹس لینے کے ضوابط کیا ہوں اور اس حوالے سے بینچ کیسے بنائے جائیں گے۔

Related Articles

Back to top button