نئے صدارتی آرڈیننس کے بعد نیب چیئرمین حکومتی غلام

کپتان حکومت کی جانب سے جاری کردہ ایک اور صدارتی آرڈیننس کا بنیادی مقصد نیب چیئرمین کو غلامی کی حد تک حکومت وقت کا ملازم بنانا ہے چنانچہ اسے عہدے سے ہٹانے کا اختیار سپریم جوڈیشل کونسل سے لے کر وزیراعظم کو دیدیا گیا ہے جس سے حکومتی بدنیتی صاف ظاہر ہوتی ہے۔
پچھلے کچھ عرصے میں نیب آرڈینینس میں تیسری ترمیم کیے جانے کے بعد چیئرمین نیب کو صدر پاکستان وزیر اعظم کی ایڈوائس پر عہدے سے فارغ کر سکتے ہیں۔ ایسا کرنے کے لیے وہی طریقہ کار رکھا گیا ہے جو سپریم کورٹ کے جج کو ہٹانے کیلئے رائج ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ اس ترمیم کے بعد چیئرمین نیب حکومت وقت کا ذاتی غلام بن جائے گا اور حکومتی احکامات اسی فرمانبرداری سے تسلیم کرے گا جیسے کوئی سرکاری ملازم کرتا ہے۔ یاد رہے کہ نیب کے موجودہ چیئرمین جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال نے نیب آرڈیننس میں ترمیم سے پہلے بھی اپنے دور میں ریاست اور حکومت کے ٹٹو کا کردار ادا کیا ہے اور اپوزیشن قیادت کا یکطرفہ احتساب کر کے صرف بدنامی کمائی ہے۔ اس سے پہلے گزشتہ ماہ بھی ایک ترمیمی آرڈیننس جاری کیا گیا تھا، جس میں سپریم جوڈیشل کونسل کو اختیار دیا گیا تھا کہ وہ چیئرمین نیب کو اسی بنیاد پر ہٹا سکتے ہیں جس بنا پر سپریم کورٹ کے جج کو ہٹایا جاتا ہے۔ تاہم ایک ماہ بعد ہی جاری ہونے والے ایک نئے آرڈیننس میں صدر کو اختیار دیا گیا ہے کہ وہ چیئرمین نیب کو ہٹا سکتے ہیں، آئین کے مطابق دیکھا جائے تو صدر پاکستان وزیراعظم کی ایڈوائس پر ہی کام کرتے ہیں۔ لہٰذا، اب عملاً وزیراعظم خود چیئرمین نیب کو ہٹا سکتے ہیں۔
نئے صدارتی آرڈینینس کے ذریعے حکومت نے دھوکہ دہی اور فراڈ کے مقدمات کی تفتیش کا اختیار بھی واپس نیب کو دے دیا ہے۔ اب نیب عدالتیں 6 اکتوبر سے پہلے کے فراڈ کے تمام مقدمات سن سکیں گی۔ یوں نیب کیسز میں آصف زرداری، شہباز شریف، شاہد خاقان عباسی، مریم نواز کو ملنے والا متوقع ریلیف بھی ختم ہو جائے گا۔ نیب کے تیسرے ترمیمی آرڈیننس 2021ء کے تحت جعلی اکاؤنٹس کے پرانے مقدمات کسی اور عدالت کو منتقل ہونے کے بجائے نیب عدالتوں میں ہی جاری رہ سکیں گے۔ اگر چیئرمین کی مدت مکمل ہونے تک نئے سربراہ کا تقرر نہیں ہوتا تو چیئرمین تب تک ذمہ داریاں ادا کرتے رہیں گے جب تک نئے کا تقرر نہیں ہو جاتا۔ صدارتی آرڈیننس کے تحت اب نیب چیئرمین کی مدت ملازمت 4 سال ہوگی، اور اسے ہٹانے کا اختیار صدر کو حاصل ہو گا جو وزیراعظم کی ایڈوائس پر عمل کرے گا۔ یاد رہے کہ نیب کے اصل آرڈیننس میں چیئرمین کو عہدے سے ہٹانے کا معاملہ مبہم رکھا گیا تھا۔ بعد ازاں سپریم جوڈیشل کونسل کو بااختیار بناتے ہوئے اُسے چیئرمین نیب کو ہٹانے کا اختیار دیا گیا۔ لیکن اب تازہ ترین آرڈیننس میں سپریم جوڈیشل کونسل سے یہ اختیار واپس لیتے ہوئے اسے صدر کو سونپ دیا گیا ہے جو وزیراعظم کی ایڈوائس پر عمل کریں گے۔ اب تو سرکاری ذرائع بھی اتفاق کرتے ہیں کہ یہ انتہائی متنازع شق ہے جو صدارتی آرڈیننس میں شامل کر دی گئی ہے اور اگر اسے عدالت میں چیلنج کیا گیا تو اس کا دفاع نہیں کیا جا سکے گا۔ پہلے ہی ایسی قانونی شق کی عدم موجودگی میں چیئرمین نیب کا عہدہ کئی برسوں سے تنقید کی زد میں رہا ہے کیونکہ ادارے کی توجہ صعف اپوزیشن قیادت کے احتساب پر ہی مرکوز رہتی ہے۔ اسی وجہ سے نہ صرف سیاسی جماعتیں بلکہ سپریم کورٹ نے بھی کئی مرتبہ نیب کے کردار پر تنقید کی ہے۔
ناقدین کا کہنا ہے کہ چیئرمین نیب کو ہٹانے کا اختیار وزیر اعظم کو دے کر نئی حکومتی ترمیم سے چیئرمین کے عہدے کی آزادی مکمل طور پر ختم ہو جائے گی کیونکہ اب وہ کوئی ایسا کام کرنے میں ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کریں گے جو وزیراعظم کی ناراضی کا سبب بن سکتا ہے۔ یاد رہے کہ اپوزیشن یہ الزام لگاتی ہے کہ جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال نے اپنی ایک نازیبا ویڈیو کے ہاتھوں بلیک میل ہو کر موجودہ حکومت کے کسی کیس کا کردار ادا کیا ہے اور اسی وجہ سے ان کے دور اقتدار میں کسی حکومتی شخصیت کا احتساب نہیں ہو پایا۔
نیب تیسرے ترمیمی آرڈیننس پر تبصرہ کرتے ہوئے سابق پراسیکیوٹر نیب عمران شفیق نے کہا کہ ’6 اکتوبر کو جاری ہونے والے آرڈینینس کا واحد مقصد موجودہ چیئرمین نیب کو ان کے عہدے پر برقرار رکھنا ہے۔ حکومت وقت نے اصلاحات کے لبادے میں لپیٹ کا ایک لمبا چوڑا آرڈینینس جاری کر دیا ہے جس کے نتیجے میں نیب کے پاس موجود مقدمات ختم ہو رہے تھے۔ ہاؤسنگ سوسائٹیوں اور دیگر کے مقدمات منتقل ہونے سے نیب کا کاروبار ٹھپ ہو رہا تھا اس وجہ سے حکومت کو نیا ترمیمی آرڈیننس لانا پڑا۔‘ انھوں نے کہا کہ ’اس ترمیم کے بعد نیب ایک ادارہ نہیں بلکہ حکومت کا ایک ماتحت محکمہ بن گیا ہے کیونکہ احتساب کے ادارے کے پاس شفاف احتساب کے لیے اگر کوئی جواز موجود تھا تو نیب چیئرمین کی ناقابل توسیع مدت ملازمت اور دوسرا اس کو ہٹانے کا سخت طریقہ کار تھا۔ اب ترمیم کے بعد حکومت نے چیئرمین نیب کو اپنے قابو میں کر لیا ہے اور ہر چئیرمین توسیع کے چکر میں حکومت کو خوش رکھنے کی کوشش کرے گا۔

Related Articles

Back to top button