فیض آباد دھرنے کی انکوائری رپورٹ:ماسٹر مائینڈ بے نقاب ہونے کے قریب

سپریم کورٹ کے حکم پرفیض آباد دھرنے کے ماسٹر مائنڈ کو سامنے لانے کیلئے تشکیل دئیے گئے کمیشن نے اپنی تحقیقات اور سفارشات کو مکمل کر لیا ہے جس میں نہ صرف اس بات کا تعین کیا گیا ہے کہ فیض آباد دھرنے کا اصل معمار کون تھا بلکہ کمیشن نے اپنی رپورٹ میں اس دھرنے کی منصوبہ بندی اور سہولتکاری میں سابق ڈی جی آئی ایس آئی جنرل فیض حمید کے کردار کا تعین بھی کردیا ہے۔ کمیشن کی رپورٹ پبلک ہونے کے بعد اس حوالے سے تمام حقائق سامنے آ جائیں گے۔

خیال رہے کہ 2019 میں عدالتِ عظمیٰ کے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس مشیر عالم پر مشتمل دو رکنی بینچ نے تحریک لبیک پاکستان کی جانب سے سنہ 2017 میں اسلام آباد میں دیے گئے دھرنے کے معاملے پر ازخود نوٹس کا فیصلہ سناتے ہوئے حکومت کو حکم دیا تھا کہ وہ ایسے فوجی اہلکاروں کے خلاف کارروائی کرے جنھوں نے اپنے حلف کی خلاف وزری کرتے ہوئے سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لیا۔عدالت نے آئی ایس آئی، ملٹری انٹیلیجنس اور انٹیلیجنس بیورو کے علاوہ پاکستانی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کو بھی ہدایت کی ہے کہ وہ اپنے دائرہ اختیار میں رہتے ہوئے کام کریں۔ بعد ازاں عدالتی فیصلے کیخلاف نظر ثانی درخواستیں دائر کی گئی تھیں۔

درخواستوں کی چار سال بعد 2023 میں ہونے والی سماعت کے دوران چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے ریمارکس دئیے تھے کہ فیض آباد دھرنا کیس میں فیصلے پر عملدرآمد نہ ہونے اور ذمہ داران کا احتساب نہ ہونے کے نتیجے میں قوم کو نو مئی کے واقعات دیکھنا پڑے۔ہم جاننا چاہتے ہیں کہ فیض آباد دھرنے کا اصل ماسٹر مائنڈ کون تھا۔ سپریم کورٹ نے حقائق سامنے لانے کیلئے حکومت کو تحقیقاتی کمیشن بنانے کا حکم دیا تھا۔ تاہم اب سینیئر صحافی انصار عباسی کی ایک رپورٹ کے مطابق فیض آباد دھرنا کیس پر قائم ہونے والے کمیشن نے اپنی تحقیقات مکمل کر لی ہیں اور رپورٹ جمع کرائے جانے کیلئے تیار ہے۔ ذریعے نے کہا کہ رپورٹ حکومت اور دیگر حکام کو کسی بھی وقت جمع کرائی جا سکتی ہے۔کہا جاتا ہے کہ کمیشن کے تینوں ارکان نے رپورٹ پر دستخط کر دیے ہیں، رپورٹ کی نقول کابینہ سیکریٹری، اٹارنی جنرل آف پاکستان اور سپریم کورٹ کے رجسٹرار کو جمع کرائی جا رہی ہیں۔

ذرائع کے مطابق کمیشن نے اس وقت کے ڈی جی (سی) آئی ایس آئی سابق آئی ایس آئی چیف لیفٹیننٹ جنرل (ر) فیض حمید، اس وقت کے وزیراعظم شاہد خاقان عباسی، اس وقت کے وزیر برائے داخلہ و دفاع احسن اقبال اور خواجہ آصف اور دیگر متعلق پولیس افسران اور راولپنڈی اور اسلام آباد کے سول انتظامیہ کے عہدیداروں سمیت کئی ہائی پروفائل افراد کا انٹرویو لیا تھا۔ کمیشن کو جس سوال کا جواب تلاش کرنے کیلئے کہا گیا تھا وہ سابق آئی ایس آئی چیف لیفٹیننٹ جنرل (ر) فیض حمید کے کردار کا تعین کرنا تھا۔ کمیشن کی رپورٹ بتائے گی کہ فیض آباد دھرنے کے پیچھے جنرل فیض حمید کا ہاتھ تھا یا نہیں؟

حکومت نے سپریم کورٹ کی ہدایت پر ان لوگوں کی نشاندہی کیلئے کمیشن تشکیل دیا تھا جنہوں نے 6؍ سال قبل اسلام آباد کے علاقے فیض آباد میں دھرنے کی منصوبہ بندی، مالی معاونت اور حمایت کی تھی۔گزشتہ سال نومبر میں تشکیل دیے گئے کمیشن کو یہ کام بھی سونپا گیا تھا کہ وہ احتجاج کے منصوبہ سازوں اور اس پر عمل کرنے والوں کیخلاف قانونی کارروائی کی سفارش کرے۔ اس کمیشن کا سربراہ سید اختر علی شاہ کو بنایا گیا جو سابق سرکاری ملازم اور خیبر پختونخوا پولیس چیف بھی رہ چکے ہیں۔ کمیشن ارکان میں سابق پولیس افسر طاہر عالم خان اور وزارت داخلہ کے ایڈیشنل سیکریٹری خوشحال خان شامل ہیں۔ کمیشن کو اس کی تشکیل کے دو ماہ کے اندر انکوائری مکمل کرنے کو کہا گیا تھا لیکن اسے اپنا کام مکمل کرنے کیلئے دو توسیع دی گئیں۔ توسیع کی درخواستیں سپریم کورٹ نے منظور کی تھیں۔

خیال رہے کہ سپریم کورٹ نے نومبر 2017ء میں تحریک لبیک پاکستان کی جانب سے روڈ بلاک کرنے کا ازخود نوٹس لیا تھا۔ بعد ازاں جسٹس مشیر عالم اور جسٹس قاضی فائز عیسیٰ پر مشتمل ڈویژن بنچ نے دھرنا کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے انٹیلی جنس ایجنسیوں، پیمرا اور الیکشن کمیشن سمیت دیگر اداروں کے کردار پر تنقید کی تھی۔ کیس کے تمام متعلقہ فریقین نے فیصلے کیخلاف نظرثانی درخواستیں دائر کیں لیکن چار سال تک ان درخواستوں پر سماعت نہ ہو سکی۔

گزشتہ سال ستمبر2023 میں چیف جسٹس پاکستان کا عہدہ سنبھالنے کے بعد جسٹس عیسیٰ نے نظرثانی درخواستوں کی سماعت کی جس کے بعد تمام درخواست گزاروں نے اپنی درخواستیں واپس لے لیں۔
اس کے بعد بینچ نے کمیشن کو ہدایت دی کہ وہ اس وقت نظرثانی درخواستیں دائر کرنے کے محرکات کی تحقیقات کرے۔ تحقیقاتی کمیشن کی ٹرمز آف ریفرنس سے کمیشن کو جہاں فیض آباد دھرنے اور اس کے بعد کے واقعات کیلئے ٹی ایل پی کی کسی بھی غیر قانونی مالی معاونت کی انکوائری کا مینڈیٹ ملا تھا وہیں کمیشن کواحتجاج کے دوران یا اس حوالے سے فتوے جاری کرنے والوں کیخلاف کارروائی کی سفارش کرنے کا بھی کہا گیا تھا۔ کمیشن کو یہ بھی مینڈیٹ بھی دیا گیا تھا کہ وہ قانون اور ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کرنے والے براڈ کاسٹرز اور کیبل آپریٹرز کیخلاف پیمرا کی عدم فعالیت کا بھی جائزہ لے اور سفارشات پیش کرے۔ تاہم اب تحقیقاتی کمیشن کی رپورٹ پبلک ہونے کے بعد ہی پتا چلے گا کہ کمیشن نے جنرل فیض حمید اور ان کے حواریوں کو کلین چٹ دی ہے یا ٹھوکنے کی سفارش کی ہے۔

Related Articles

Back to top button