2021 میں دہشت گردی میں کمی کی بجائے اضافہ کیوں ہوا؟


اسٹیبلشمنٹ اور حکومت کی جانب سے گزشتہ برس تحریک طالبان پاکستان اور دیگر دہشت گرد تنظیموں کے ساتھ مذاکرات کے ذریعے امن و امان بحال قائم کرنے کی تمام کوششیں بری طرح ناکام ہوئی ہیں جس کا بڑا ثبوت یہ ہے کہ گزشتہ چھ برسوں کے مقابلے میں سال 2021 میں دہشت گردی کے واقعات میں واضح اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔
سیکیورٹی ماہرین کے نزدیک ان واقعات میں اضافے کی ایک بڑی وجہ افغانستان میں طالبان کا دوبارہ برسرِ اقتدار آنا ہے جس سے دہشت گرد تنظیموں کو شہہ ملی ہے اور وہ پاکستان کے طول و عرض میں کھل کر کارروائیاں کر رہی ہیں۔ اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ2021ء ملک پر بھاری رہا، دہشتگردی کے واقعات میں 56 فیصد اضافہ ہوا جو بڑے خطرے کا پیش خیمہ ہے۔
ملک میں دہشتگردی پر نظر رکھنے والے تحقیقی ادارے آزاد تھینک ٹینک پاکستان انسٹی ٹیوٹ فار کانفلکٹ اینڈ سکیورٹی سٹڈیز یا پکس نے سالانہ رپورٹ جاری کرتے ہوئے کہا کہ دہشگردی کے واقعات میں گزشتہ چھ سال میں مسلسل کمی کے بعد ایک بار پھر اضافہ دیکھا گیا ہے اور 2021ء گزشتہ چھ برسوں کی نسبت دہشتگردی کے حوالے سے ملک پر بھاری رہا۔ اس سال پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات میں 56 فیصد اضافہ ہوا ان میں سے زیادہ تر واقعات میں تحریک طالبان پاکستان ملوث تھی۔
رپورٹ کے مطابق خیبر پختونخوا میں ضم ہونے والے قبائلی اضلاع میں ماضی میں درجنوں فوجی آپریشنز کئے گئے مگر اس سال بھی قبائلی اضلاع عسکریت پسندوں کے نشانے پر رہے اور سب سے زیادہ حملے پاکستان کے قبائلی اضلاع میں 103 ہوئے۔ رپورٹ کے مطابق بلوچستان میں بھی مختلف نوعیت کے 103 حملے کئے گئے لیکن سابقہ فاٹا کی نسبت بلوچستان جانی نقصانات کے حوالے سے سب سے زیادہ متاثرہ صوبہ رہا۔ پکس کی سالانہ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ گزشتہ ایک سال میں دہشت گردی کے 294 واقعات میں 376 افراد جان سے ہاتھ دھو بیٹھے اور 606 زخمی ہوئے۔ سیکیورٹی رپورٹ میں سویلین اور سیکیورٹی فورسز کو دہشتگردی کی وجہ سے حاصل ہونے والی جانی نقصان کا بھی جائزہ لیا گیا ہے۔ پکس کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ دہشت گردی کے واقعات میں سویلین افراد کی ہلاکتوں کی تعداد میں 46 فیصد جبکہ سیکیورٹی فورسز کے جانی نقصانات میں 66 فیصد اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق دونوں برسوں کے تقابلی جائزے سے معلوم ہوتا ہے کہ 2020 کے مقابلے میں 2021 میں جنگجو حملوں میں 56 فیصد ‘ مجموعی جانی نقصان میں 46 فیصد جبکہ سیکیورٹی فورسز کے جانی نقصان میں 66 فیصد اضافہ ہوا۔ 2021 میں ہونے والے جنگجو حملوں کی تعداد 2017 ء کے بعد کسی بھی سال میں سب سے زیادہ جبکہ جانی نقصان 2018 کے بعد کسی بھی سال میں سب سے زیادہ رہا۔
رپورٹ کے مطابق رواں برس پاکستان میں سندھ اور گلگت بلتستان میں دہشتگردی میں اضافہ نہیں ہوا جبکہ باقی تمام صوبوں میں دہشت گردی کے واقعات میں اضافہ ہوا۔
رپورٹ نے افغانستان میں سیاسی تبدیلی کے بعد پاکستان پر ہونے والے اثرات کا بھی جائزہ لیا ہے اور کہا ہے کہ افغانستان میں بننے والی تبدیلی پاکستان میں دہشتگردی کی نئی لہر ساتھ لائی ہے۔ رپورٹ کے مطابق پاکستان میں جنگجووں کے  حملوں میں اضافہ ان دنوں  میں شروع ہوا جب مئی میں افغانستان میں طالبان نے اشرف غنی کی حکومت کے خلاف حملوں میں شدت لائی تھی اور پیش قدمی جاری رکھی تھی۔ اگست 2021ء میں افغانستان میں طالبان کی حکومت قائم ہوئی تو اس ماہ پاکستان میں سال کے کسی ایک ماہ میں سب سے زیادہ حملے ریکارڈ کیے گئے جن کی تعداد 45 تھی حالانکہ تب تک حکومت پاکستان ٹی ٹی پی کے ساتھ امن مذاکرات کا آغاز کر چکی تھی۔
رپورٹ کے مطابق 10 نومبر سے 10 دسمبر تک تحریک طالبان پاکستان کی  ایک ماہ کی جنگ بندی کے باوجود نومبر اور دسمبر میں جنگجو حملوں کی تعداد میں کمی واقع نہیں ہوئی۔ پاکستان میں سال 2020ء میں دہشت گرد حملوں کی ماہانہ اوسط 16 تھی جو 2021ء میں بڑھ کر 25 ہوگئی ہے جو کہ 2017ء کے بعد کسی بھی سال میں ماہانہ سب سے زیادہ اوسط ہے۔ پاکستان انسٹی ٹیوٹ فار کانفلکٹ اینڈ سکیورٹی اسٹڈیز کی تازہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ دہشت گردی کے واقعات میں 184 عام شہری اور  192 سکیورٹی فورسز کے اہلکار شہید ہوئے جبکہ سکیورٹی فورسز نے 188 دہشت گردوں کو ہلاک اور 220 کو گرفتار کیا۔ رپورٹ کے مطابق خیبر پختونخوا کے قبائلی اضلاع کے علاوہ دیگر علاقوں میں 56 دہشت گردانہ حملوں میں 63 افراد مارے گئے اور 59 زخمی ہوئے۔ سندھ میں 15 جنگجو حملوں میں 23 افراد مارے گئے اور 29 زخمی ہوئے۔ پنجاب میں 10 جنگجو حملوں میں دس افراد مارے گئے جبکہ 87 زخمی ہوئے۔ وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کی حدود میں تین جنگجو حملوں میں تین افراد مارے گئے جبکہ آزاد کشمیر میں ہوئے ایک  جنگجو حملے میں ایک فرد کی جان گئی۔
رپورٹ میں دہشتگردی سے نمٹنے کے لئے ریاست کی جانب سے اٹھائے گئے اقدامات کا بھی جائزہ لیا گیا ہے۔ ملک میں دہشت گردی کے بڑھتے رجحان پر قابو پانے کے لیے پاکستان کے قومی سلامتی کے ادارے تحریک طالبان کے ساتھ امن مذاکرات کے علاوہ دہشت گردی روکنے کے لیے سرگرمیوں میں بھی تیزی لائے۔ 2021 کے دوران سیکیورٹی فورسز کی کارروائیوں میں 40 فیصد اضافہ دیکھنے میں آیا۔ مجموعی طور پر سیکیورٹی فورسز کی  کی 205 کارروائیاں رپورٹ ہوئیں جن میں کم از کم 188 جنگجو ہلاک جبکہ 220 گرفتار ہوئے۔ سیکیورٹی فورسز کی سب سے زیادہ کارروائیاں سندھ میں نوٹ کی گئیں جہاں 57 کارروائیوں میں مشتبہ دہشت گردوں کو گرفتار اور پانچ کو ہلاک کیا گیا۔ سابقہ فاٹا میں 48 کارروائیوں میں 72 مشتبہ دہشت گردوں کو ہلاک جبکہ 13 کو گرفتار کیا گیا۔ خیبر پختونخواہ کے دیگر علاقوں میں 38 کارروائیوں میں 21 جنگجوؤں کو ہلاک اور 43 کو گرفتار کیا گیا۔ رپورٹ کے مطابق سندھ کے بعد سیکیورٹی فورسز نے سب سے زیادہ مشتبہ جنگجو پنجاب سے گرفتار کیے جہاں 32 کارروائیوں میں 56 مشتبہ جنگجوؤں کو گرفتار اور سات کو ہلاک کیا گیا۔ سیکیورٹی فورسز کی کارروائیوں میں سب سے زیادہ جنگجوؤں کی ہلاکتیں بلوچستان میں ہوئیں جہاں 29 کارروائیوں میں 83 جنگجو ہلاک اور 13 گرفتار ہوئے۔
پکس کی تازہ رپورٹ ثابت کرتی ہے کہ نہ صرف اسٹیبلشمنٹ اور حکومت کی دہشت گرد تنظیموں کے ساتھ مذاکرات کے ذریعے انہیں ہتھیار ڈال کر قومی دھارے میں لانے کی حکمت عملی ناکامی سے دوچار ہوئی بلکہ انہیں کچلنے میں بھی خاطر خواہ کامیابی حاصل نہ ہوسکی۔ دفاعی تجزیہ کار سمجھتے ہیں کہ افغانستان میں طالبان کے برسرِ اقتدار آنے کے بعد پاکستان میں موجود تحریک طالبان اور دیگر دہشت گرد تنظیموں کو شہہ ملی ہے اس لئے 2021 میں دہشت گردی کے واقعات میں واضح اضافہ دیکھا گیا۔

Related Articles

Back to top button