نواز شریف نے جنرل باجوہ کو کس کے کہنے پر چیف بنایا

سابق وزیرا عظم نواز شریف کے قریبی ساتھی سینیٹر عرفان صدیقی نے دعویٰ کیا ہے کہ سابق آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے اپنی مدت ملازمت میں توسیع کیلیے خود وزیراعظم نواز شریف سے درخواست کی تھی لیکن انکار کے بعد وہ انکے خلاف ہو گئے اور ہر قدم پر رکاوٹیں کھڑی کی گئیں تاکہ حکومت کھل کر کام نہ کر سکے۔ انکا کا کہنا تھا کہ موجودہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی آوٹ آف ٹرن تقرری پر نواز شریف نے سب ساتھیوں سے مشاورت کی تاہم حتمی فیصلہ ان کا اپنا تھا۔

یہ اور بات کہ نوازشریف کو جنرل مشرف کی طرح جنرل باجوہ کی آؤٹ آف ٹرن تقرری بھی راس نہ آئی اور انہیں ایک مرتبہ پھر گھر جانا ہڑا۔ لیگی سینیٹر نے کہا کہ ہر ادارے کو آئین و قانون کے دائرے میں رہ کر کام کرنا چاہیے، کیونکہ اسی میں ملک کی بھلائی ہے، ویسے بھی آئین پر شب خون مارنے والے کو فوج کے اندر بھی عزت کی نگاہ سے نہیں دیکھا جاتا، آج بھی لوگ شہدا کے مزاروں پر جاتے ہیں لیکن ڈکٹیٹروں کی قبروں پر کوئی نہیں جاتا۔ یہ باتیں عرفان صدیقی نے ایک نیوز ایجنسی کو انٹرویو دیتے ہوئے کیں۔

یاد رہے کہ جنرل راحیل شریف مسلسل اس بات سے انکار کرتے ہیں کہ وہ اپنے عہدے میں توسیع کے خواہاں تھے۔ تاہم کئی سابق فوجی افسران اور سیاستدان اس بات کی تصدیق کر چکے ہیں کہ راحیل شریف ریٹائرڈ نہیں ہونا چاہتے تھے اور توسیع کے خواہشمند تھے۔

سابق کورٹ کمانڈر کوئٹہ لیفٹیننٹ جنرل (ر) عبدالقادر بلوچ کے مطابق نواز شریف نے انہیں بتایا تھا کہ راحیل شریف نے مدت ملازمت میں توسیع کے لئے بار ہا ان سے رابطہ کیا لیکن انہوں نے توسیع دینے سے انکار کر دیا۔ اپنی حکومت جانے کے بعد مسلم لیگ (ن) کے چند سرکردہ رہنماؤں نے ڈان لیکس اور پاناما پیپرز جیسے اسکینڈلز کو راحیل شریف کی مدت ملازمت میں توسیع نہ دیئے جانے سے جوڑ تھا۔

سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے بھی ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ راحیل شریف کو توسیع نہ دیئے جا نے پر ان سمیت پارٹی مسلم لیگ (ن) کو نشانہ بنایا گیا۔ ان کا کہنا ہے کہ انہوں نے شہباز شریف کے ساتھ جا کر راحیل شریف کو بتایا تھا کہ ان کی مدت ملازمت میں توسیع نہیں کی جا رہی۔ اس انکار کے فوری بعد ڈان لیکس اور پاناما لیکس جیسے اسکینڈلز سامنے آئے جنہیں شاطرانہ طریقے سے ہمارے خلاف استعمال کیا گیا۔

فوجی افسران کے بجلی بلوں میں رعایت 1990 سے ملنے کا انکشاف

دوسری طرف اسٹیبلشمنٹ کے بھونپو سمجھے جانے والے لیفٹینینٹ جنرل امجد شعیب کا اصرار ہے کہ راحیل شریف توسیع نہیں لینا چاہتے تھے لیکن نواز شریف انہیں توسیع دینا چاہتے تھے۔ امجد شعیب کے مطابق مسلم لیگی قیادت کا کہنا تھا کہ چونکہ ملک اب بھی دہشت گردی کے خلاف برسر پیکار ہے، لہٰذا راحیل شریف اپنی خدمات جاری رکھیں۔

لیکن بقول امجد جب جنرل راحیل نے ہچکچاہٹ کا اظہار کیا تو انہیں فیلڈ مارشل کے عہدے کی پیشکش کی گئی۔ انہوں نے پھر سے انکار کیا اور بتایا کہ وہ کوئی علامتی عہدہ نہیں چاہتے جہاں ان کے لئے کرنے کو کچھ نہ ہو۔ تاہم سچ تو یہ ہے کہ راحیل شریف نے توسیع نہ ملنے کے بعد پاکستان کے کھاتے میں سعودی عرب میں موجود اتحادی فوج کی سربراہی قبول کر لی تھی جو کہ ایک نمائشی عہدہ ہے۔

خیال رہے کہ اس سے پہلے نواز شریف خود بھی اپنی ایک تقریر میں یہ دعویٰ کر چکے ہیں کہ سال 2014 میں عمران خان کے اسلام آباد دھرنے کے دوران انہیں آئی ایس آئی سربراہ لیفٹیننٹ جنرل ظہیرالاسلام کا یہ پیغام پہنچایا گیا کے حالات بہت خراب ہیں اور ملک کے مفاد میں بہتر ہوگا کہ وہ اپنے عہدے سے استعفی دے دیں۔

تاہم انہوں نے انکار کر دیا تھا تھا اور جنرل راحیل شریف کے سامنے یہ معاملہ اٹھایا تھا۔ سینئر صحافی انصار عباسی نے اس حوالے سے انکشاف کیا تھا کہ نواز شریف کی شکایت کے بعد راحیل شریف نے وزیر اعظم اور ان کے اہم وزراءکے ساتھ ملاقات کے دوران ڈی جی آئی ایس آئی سے باز پرس کی، تاہم ظہیر الاسلام نے انکار کیا تھا کہ انہوں نے وزیراعظم کو ایسا کوئی پیغام بھیجا تھا۔ لیکن نواز شریف کے قریبی ذرائع کا دعویٰ ہے کہ ظہیر کا ‘نواز شریف استعفی دو’ کا پیغام رساں آئی ایس آئی کا ایک بریگیڈئیر تھا جو تب ظہیر کا ماتحت تھا اور اب ریٹائرڈ ہو چکا ہے۔

استعفی اگست 2014 کے دھرنے کے تیسرے ہفتے کو رات گئے مانگا گیا جب پیغام رساں بریگیڈئیر نے اسحاق ڈار کے ذریعے نواز شریف کو استعفی دینے کا پیغام پہنچایا۔ تاہم نواز شریف نے ایسا کرنے سے صاف انکار کر دیا تھا جس کے کچھ عرصہ بعد راحیل شریف ریٹائرڈ ہوگئے اور جنرل باجوہ کے آنے کے بعد نوازشریف کو پانامہ کیس میں نااہل قرار دلوا کر وزارت عظمیٰ سے نکال دیا گیا۔

Related Articles

Back to top button