عمر شریف کی بیٹی کا قاتل ڈاکٹر فواد ممتاز کون ہے؟

34لاکھ روپے کے عوض معروف کامیڈین عمر شریف کی بیٹی حرا شریف کے گردے کی غیر قانونی پیوندکاری اور ناگہانی موت کا سکینڈل منظر عام پر آنے کے بعد وفاقی تحقیقاتی ادارہ اور ہیومن آرگن ٹرانسپلانٹ اتھارٹی پنجاب حرکت میں آ گئے ہیں اور ناکام ٹرانسپلانٹ کے ذمہ دار سرجن ڈاکٹر فواد ممتاز کی گرفتاری کیلئے چھاپے مارنے شروع کر دئیے ہیں۔
یاد رہے کہ عمر شریف کی اکلوتی بیٹی حرا پچھلے تین برس سے گردوں کے مرض میں مبتلا تھیں اور 2017 سے وہ مستقل بنیادوں پر ڈائیلیسز کرواتی تھیں۔ تاہم منگنی کے بعد سے حرا پر اپنی والدہ کی طرف سے دباؤ تھا کہ وہ گردے کا ٹرانسپلانٹ کروا لیں تاکہ ان کی شادی کروائی جا سکے۔ تاہم یہ جانتے بوجھتے ہوئے کہ گردے کی پیوند کاری ایک رسکی عمل ہے، عمر شریف اس کی مخالفت کر رہے تھے۔ یہ اطلاعات بھی ہیں کہ حرا کا کڈنی ٹرانسپلانٹ ان کی والدہ اور بھائی نے عمر شریف کے علم میں لائے بغیر کروایا تھا۔
ذرائع کے مطابق پولیس حکام نے گزشتہ رات بحریہ ٹاؤن میں ٹرانسپلانٹ سرجن ڈاکٹرفواد ممتازکے گھر پر چھاپہ مارا جس نے آزاد کشمیر کے کسی نامعلوم مقام پر واقع اپنے خفیہ کلینک میں عمر شریف کی بیٹی کا غیر قانونی ٹرانسپلانٹ کیا تھا۔
ذرائع کے مطابق لاہور جنرل اسپتال کے ڈاکٹر فواد ممتاز پنجاب کے مختلف حصوں میں اعضا کی تجارت کا نیٹ ورک چلانے کے حوالے سے بدنام ہیں۔ پولیس کے مطابق ڈاکٹر فواد گرفتاری سے بچنے کےلیے پہلے ہی گھر سے فرار ہوچکے تھے جس کے باعث ٹیم کو ناکام واپس لوٹنا پڑا۔
خیال رہے کہ ایف آئی اے اور ایچ او ٹی اے کی مشترکہ ٹیم نے یہ کارروائی عمر شریف کے بیٹے جواد عمر کی شکایت پر کی تھی جس میں انہوں نے کہا تھا کہ ان کی بہن حرا شریف ڈاکٹر فواد ممتاز کے ہاتھوں کی گئی گردے کی غیر قانونی پیوندکاری کے باعث موت کے منہ میں گئیں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ ڈاکٹر فواد نے گردے کی پیوندکاری کے لیے 34لاکھ روپے لیے تھے اورانہیں آزاد کشمیر کے کسی نامعلوم مقام پر لے گئے تھے جہاں آپریشن کے ایک ہفتے بعد انہیں سنگین طبی پیچیدگیاں لاحق ہوگئیں تھیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ ڈاکٹر نے آزاد کشمیر کلینک اس لیے بنا رکھا تھا کہ وہاں پاکستان کا قانون لاگو نہیں ہوتا ہے۔ یاد رہے کہ حکومت پاکستان نے گردوں کی غیر قانونی پیوندکاری کو جرم قرار دے رکھا ہے۔
عمر شریف کے بیٹے جواد عمر نے الزام لگایا ہے کہ آپریشن کے بعد ان کی بہن کی حالت تشویشناک ہونے پر ڈاکٹر نے ان کو بحریہ ٹاؤن لاہور شفٹ کرنے کا مشورہ دیا اور جب وہ کوما میں چلی گئیں تو ڈاکٹر غائب ہوگیا جس کی تلاش جاری یے۔
تاہم جواد عمر نے اس مقام، عمارت یا سڑک کے ایڈریس کے حوالے سے لاعلمی کی اظہار کیا کہ جہاں ان کی بہن کا آپریشن کیا گیا تھا۔ حکام کو دی گئی درخواست میں ڈاکٹر فواد پر لگائے گئے الزامات کی تحقیقات کے لیے ہیومن اورگنز ٹرانسپلانٹ اتھارٹی نے چار رکنی کمیٹی تشکیل دی ہے وہ اس معاملے کو دیکھ رہی ہے۔
بتایا گیا ہے کہ ٹرانسپلانٹ سرجن ڈاکٹر فواد مجرمانہ ریکارڈ رکھتا ہے اور اس کے ہاتھوں مریض کی موت کا یہ پہلا واقعہ نہیں ہے۔ اس سے پہلے بھی کئی لوگ اس کے ہاتھوں موت کا شکار ہو چکے ہیں لیکن ڈاکٹر پکڑ میں نہیں آیا اور بغیر کسی رکاوٹ کے اعضا کی غیر قانونی پیوندکاری کا نیٹ ورک چلائے جا رہا ہے۔ یہ بھی پتہ چلا ہے کہ فیصل آباد، ملتان، لاہور اور پنجاب کے مختلف حصوں میں ڈاکٹر فواد کے خلاف اعضا کی غیر قانونی پیوندکاری کرنے پر مقدمات درج ہیں۔ ڈاکٹر فواد کو ایف آئی نے اپریل 2017 میں اس وقت رنگے ہاتھوں گرفتار کیا گیا تھا جب وہ ای ایم ای سوسائٹی میں اردنی، لیبیائی اور عمانی شہریوں سمیت غیر ملکیوں کی فی کس 60 لاکھ روپے کے عوض گردے کی غیر قانونی پیوند کاری کررہا تھا۔ اس آپریشن کے دوران اردن کی شہری سلمیٰ کا انتقال ہوگیا تھا، چھاپہ مار ٹیم نے پنجاب کے ینگز ڈاکٹر ایسوسی ایشن کے جنرل سیکریٹری ڈاکٹر التمشن کھرل اور دیگر 2 ملزمان کو بھی موقع سے گرفتار کیا تھا۔ اس وقت لاہور میں بڑے سرکاری ٹیچنگ ہسپتالوں میں کام کرنے والے ڈاکٹرز کے اعضا کی غیر قانونی پیوند کاری کے تجارتی نیٹ ورک کو توڑنے کی خبر نے ملکی میڈیا میں ہلچل مچادی تھی۔ اس واقعے کے بعد اپریل 2018 میں لاہور ہائی کورٹ نے گردے کی غیر قانونی پیوندکاری پر ڈاکٹر فواد ممتاز کی ضمانت بعد ازگرفتاری منسوخ کردی تھی۔ بعد ازاں جب انہوں نے دوبارہ ہائی کورٹ سے رجوع کیا تو انہیں ضمانت پر رہا کردیا گیا تھا جس کے بعد انہوں نے لاہور جنرل اسپتال میں اپنی ذمہ داریاں دوبارہ سنبھال لی تھیں اور نجی جگہوں پر دوبارہ اعضا کی پیوندکاری شروع کردی تھی۔
ڈاکٹر فواد کو اگست 2019 میں ایک مرتبہ پھرایک کیس میں نامزد کیا گیا تھا جب انہوں نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ مل کر ایک غریب بڑھئی شاہد مسیح کا گردہ نکال لیا تھا۔ کچھ عرصہ قبل ملتان میں پاکستان پینل کوڈ کی دفعہ 302 کے تحت ان کے خلاف ایک اور مقدمہ درج کیا گیا جب ’اعضا کی غیر قانونی پیوندکاری‘ کے نتیجے میں کچھ مریضوں کی اموات ہوگئی تھیں۔ اس مقدمے کے اندراج کے بعد ڈاکٹر فواد نے ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج محمد نواز بھٹی کی عدالت سے ضمانت قبل از گرفتاری حاصل کرلی تھی۔ بعد ازاں انہیں جج کی عدالت میں ایچ او ٹی اے کے لیگل ڈائریکٹر عمران احمد نے کیس کی پیروی جاری رکھی جس میں پیش نہ ہونے پر ڈاکٹر فواد کی ضمانت مسترد کردی گئی تھی۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ پولیس ڈاکٹر فواد ممتاز کو گرفتار کر پاتی ہے یا نہیں۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button