جناح ٹاور کو مسماری سے بچانے کے لیے بھارتی رنگ دے دیا گیا

بھارتی ریاست آندھرا پردیش کے معروف کاروباری شہر گنٹور میں محمد علی جناح کے نام سے موسوم تاریخی یادگار جناح ٹاور سینٹر انتہا پسند ہندوؤں کے ہاتھوں مسماری کے خطرے سے دوچار ہوگئی ہے۔ گونٹور شہر کے مرکز میں موجود یہ ٹاور اپنی تعمیر کے 70 برس بعد بھی مذہبی ہم آہنگی کی علامت کے طور پر موجود ہے کیونکہ اس علاقے میں رہنے والے زیادہ تر لوگ غیر مسلم ہیں۔ چونکہ اب اس ٹاور کو گرانے کا مطالبہ کیا جا رہا ہے لہٰذا اسے انتہا پسند ہندو تنظیموں کے غیض و غضب سے بچانے کے لیے مسلمانوں نے بھارتی پرچم کے تین رنگوں میں پینٹ کر دیا ہے۔

گونٹور شہر کا جناح ٹاور اب بھارتی پرچم کے رنگوں میں بالکل الگ دکھائی دیتا ہے۔ پہلے یہ ٹاور روایتی طور پر سفید رنگ کا ہوتا تھا جسے یکم فروری 2022 کو بھارتی پرچم کے طرز پر تین رنگوں، نارنجی، سبز اور سفید میں پینٹ کیا گيا۔

جناح ٹاور گونٹور شہر کے مہاتما گاندھی روڈ کے اس مرکزی علاقے میں واقع ہے جہاں ایک بڑا بازار ہے۔ سخت گیر ہندو تنظیمیں اس کا نام بدلنے کا مطالبہ کرتی رہی ہیں اور حال ہی میں اس سلسلے میں ہونے والے ایک احتجاجی مظاہرے کی وجہ سے ہندو واہنی کے درجنوں افراد کو حراست میں بھی لیا گیا تھا جو جناح ٹاور پر حملہ کرنا چاہتے تھے۔ اس واقعے کے بعد ہی مقامی اسمبلی کے ایک مسلم رکن محمد مصطفٰی نے ٹاور کو بچانے کے لیے بھارتی پرچم کے رنگوں سے پینٹ کروا دیا۔ تاہم اب محمد مصطفی کو بھی مسلمانوں کی جانب سے تنقید کا سامنا ہے۔

بھارت میں بانی پاکستان محمد علی جناح کے نام کا تذکرہ اکثر و بیشتر سیاسی مفاد کے لیے منفی انداز میں ہوتا رہتا ہے اور آجکل بی جے پی کے رہنما یو پی کے اسمبلی انتخابات کے ماحول میں تو  تقریباً ہر روز ہی منفی الفاظ میں ان کا نام لیتے ہیں۔ جناح پر تقسیم ہند کی ذمہ داری ڈالی جاتی ہے اور اسی کو بنیاد بنا کر ہندو گروہ جناح ٹاور کو بھی توڑنے یا پھر اس کا نام بدلنے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔

برطانیہ میں مقیم بلاگرز اور صحافیوں کی جانیں خطرے میں

ان لوگوں کا کہنا ہے کہ شہر کے مرکز میں اُس شخص کے نام سے کوئی ٹاور نہیں ہونا چاہیے کہ جو تقسیم ہند کی وجہ بنا ہو۔ ماضی میں بھی کئی بار ایسا مطالبہ ہوا۔بی جے پی کے رہنما ستیہ کمار نے گونٹور میں جناح ٹاور سینٹر کا نام تبدیل کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے ایک ٹویٹ میں کہا ہے کہ ٹاور کا نام جناح اور علاقے کا نام جناح سینٹر ہے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ یہ پاکستان میں نہیں بلکہ آندھرا پردیش کے گنٹور شہر میں واقع ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ وہ شخص جسے بھارت میں غدار مانا جاتا ہوں اسکے نام پر یہاں کوئی عمارت نہیں ہونی چاہیئے۔ چنانچہ جناح سینٹر کا نام بدل کر ڈاکٹر ابوالکلام کے نام پر کیوں نہ رکھا جائے؟

لیکن سوال یہ ہے کہ آخر انڈیا کے کسی شہر میں جناح کے نام پر ٹاور یا یادگار بنائی کیوں گئی تھی اور اب اسے گرانے کا مطالبہ کیوں کیا جا رہا ہے؟ تاریخ کا مطالعہ کریں تو معلوم ہوتا یے کہ گنٹور میں جناح کے لیے ایک عوامی جلسہ منعقد کیا گیا تھا اور یہ ٹاور ان کی آمد کی یادگار کے طور پر تعمیر کرنے کا فیصلہ ہوا تھا۔

یہ ٹاور 1942 سے 1945 کے دوران تین برس کے عرصے میں تعمیر ہوا۔ اس دور کے ایک مقامی مسلم رہنما لال جان باشا نے علاقے میں ہندو مسلم فسادات کے بعد مذہبی ہم آہنگی کے لیے ایک جلسہ کرنے کا اعلان کیا۔ اس جلسے میں محمد علی جناح کو بطور مہمان خصوصی آنے کی دعوت دی گئی تھی۔ اسی مناسبت سے لال جان باشا نے اس جلسے کے مقام پر یادگار کے طور پر ٹاور بنانے کا فیصلہ کیا۔

Related Articles

Back to top button