عمران خان نے فوج کے ادارے کی ساکھ کیسے خراب کی؟


معروف صحافی اور تجزیہ کار سلیم صافی نے کہا ہے کہ سو نواز شریف اور سو آصف زرداری حریف بن کر فوج کے ادارے کی ساکھ اور اس کے وقار کو اتنا نقصان نہیں پہنچا سکتے تھے جتنا حلیف بن کر تنہا عمران خان نے پہنچا دیا ہے۔ لہذا عوام کے علاوہ اس وقت یہ ریاستی ادارہ بھی ایک بڑی آزمائش سے دوچار ہے جس نے ایک شخص کی خاطر یہاں وہاں ڈھیروں دشمنیاں مول لیں۔بقول صافی اس تناظر میں خود عمران کو بھی یہ زعم ہے کہ انکا کوئی متبادل نہیں، اس لئے وہ مزید جارحانہ انداز میں کھیلنے لگے ہیں۔ یوں وہ ریاستی اداروں کے لئے نہ صرف تاریخ کا سب سے بڑا بوجھ بھی بن گئے ہیں بلکہ انکی مجبوری بھی۔
اپنے تازہ سیاسی تجزیے میں سلیم صافی کہتے ہیں کہ عمران خان بے وقوف نہیں بلکہ حددرجہ چالاک اور بے وقوف بنانے کے ماہر آدمی ہیں۔ انہون نے عوام سے لے کر خواص تک، سب کے ہاتھ میں الگ الگ لالی پاپ دے رکھا تھا لیکن اب ہر حوالے سے ثابت ہو گیا کہ وہ مسیحا نہیں بلکہ ایک شاطر کھلاڑی اور مداری ہیں۔ انہوں نے تاثر یہ دیا تھا کہ انہیں نہ تو ذاتی آرام عزیز ہے، نہ ذاتی مفاد اور نہ ہی ذاتی انا۔ وہ جو کچھ کریں گے ملک کے لئے کریں گے لیکن اب واضح ہوگیا کہ ان کی سوچ ذات سے شروع ہوتی ہے اور ذات پر ہی ختم ہوتی ہے۔ ذاتی ضرورت ہو تو وہ لبرل بن جاتے ہیں اور ذاتی مفاد کا تقاضا ہو تو وہ مذہبی کارڈ استعمال کرنے لگتے ہیں۔ خان صاحب یہ تک نہیں سوچتے کہ مذہبی کارڈ کا استعمال اس وقت ملک کے لئے کتنا تباہ کن ہے۔
صافی کہتے ہیں کہ عمران خان نے تاثر یہ دیا تھا کہ وہ کرپشن کا خاتمہ کریں گے اور مافیاز کو لگام ڈالیں گے لیکن ان کی حکومت میں کرپشن ماضی کی کسی بھی حکومت سے زیادہ ہے۔ نیب کا خوف، عدالت کا اور نہ میڈیا کا!چنانچہ نہ صرف کرپشن کا بازار گرم ہے بلکہ انتہائی ڈھٹائی اور بیہودہ طریقے سے کرپشن ہورہی ہے۔ جب کورونا کے لئے آنے والی خیراتی رقم میں سے چالیس ارب روپے کی ہیراپھیری ہورہی ہو تو اندازہ لگالیں کہ باقی جگہ کیا حالت ہوگی؟ پہلی حکومتوں میں اسامیاں بکتی تھیں لیکن ان کی حکومت میں وزارتیں اور صوبے بک رہے ہیں۔
بقول سلیم صافی، بلوچستان کی پہلی حکومت بھی اربوں میں بنی تھی اور اب بھی کئی ارب روپے کے عوض اقتدار میں آئی ہے۔ پنجاب میں سر آئینہ کوئی اور ہے جبکہ پس آئینہ اربوں کا دھندہ زوروں پر ہے۔ خیبر پختونخوا کے بارے میں پی ٹی آئی کے ایم پی اے اور پرویز خٹک کے بھائی نے گواہی دی کہ کرپشن کے حوالے سے ماضی کے تمام ریکارڈ ٹوٹ گئے۔ عمران نے تاثر دیا تھا کہ خودکشی کرلوں گا لیکن قرضہ نہیں لوں گا۔ دعویٰ تھا کہ امداد کی بھیک نہیں مانگوں گا لیکن اتنی بھیک مانگی کہ اب سعودی عرب جیسے دوست بھی مزید خیرات یا امداد دینے کے بجائے قرضہ دے رہے ہیں اور وہ بھی سخت ترین شرائط پر۔ قرضے اتنے لئے کہ ماضی کے تمام ریکارڈ ٹوٹ گئے۔ 
سلیم صافی بتاتے ہیں کہ نون لیگ کی حکومت نے پانچ سال میں 30 ہزار ارب کا قرضہ لیا تھا جبکہ ان کی حکومت نے تین سال میں50 ہزار ارب روپے سے زیادہ قرض لے لیا ہے جس کا بول ٹیکسوں کی صورت میں عوام کے کندھوں پر ڈالا جا رہا ہے۔ ماضی کی حکومتوں میں بھی معاشی پالیسی سازی میں آئی ایم ایف کا عمل دخل ہوا کرتا تھا لیکن یہ پہلی حکومت ہے جب اقتصادی پالیسیوں کی مہار مکمل طور پر آئی ایم ایف کے ہاتھ میں دی جا چکی ہے۔انہوں نے تاثر دیا تھا کہ انہوں نے بے تحاشہ ہوم ورک کررکھا ہے اور یہ کہ ان کے پاس ماہرین کی ٹیم ہے لیکن اقتداردلوانے کے بعد پتہ چلا کہ ان کی ٹیم میں وزیرخزانہ اور وزیر قانون تک نہیں۔
وزیر قانون الطاف حسین کے تربیت یافتہ ان کے سابق وکیل کو بنایا گیا۔ پہلے جس شخص کو وزیرخزانہ بنایا گیا، وہ معیشت کے نہیں بلکہ مارکیٹنگ کے ماہر تھے اور وہ بھی اپنی ذات کی مارکیٹنگ کے۔ چنانچہ انہوں نے تباہی کی بنیادیں رکھ دیں اور اب ان کے ذریعے سی پیک وغیرہ کا بیڑہ غرق کیا جارہا ہے۔
سلیم صافی کہتے ہیں کہ پہلے زرداری حکومت کا ایک وزیرخزانہ باہر سے منگوایا گیا اور اب ان کا دوسرا وزیر خزانہ ان کے خزانے کو چلائے گا۔ اسٹیٹ بینک کا گورنرآئی ایم ایف سے لایا گیا جو اس سے قبل مصر کی معیشت کا بیڑہ غرق کرنے کی شہرت رکھتا ہے۔ ان کی حکومت میں کچھ اہم وزارتیں کراچی میں میزبانی کرنے والوں کی، کچھ لندن میں خدمت کرنے والوں، کچھ لاہور میں خدمت کرنے والوں کی اور کچھ خوشامد میں ثانی نہ رکھنے والے پختونوں کے حوالے کی گئیں۔چنانچہ معیشت تباہ ہوکررہ گئی۔ مہنگائی تاریخ کی بلند ترین سطح پر جاپہنچی اور بیروزگاری اس حد تک بڑھ گئی کہ ملک جرائمستان میں تبدیل ہو گیا۔
سلیم صافی کا دعویٰ ہے کہ اسٹیٹس مین شپ عمران کے قریب سے نہیں بھی گزری لیکن وہ بے وقوف بنانے میں بلا کے ماہر ہیں۔ چنانچہ اچھے بھلے، باخبر اور سمجھدار لوگ بھی ان سے توقع لگائے بیٹھے تھے کہ وہ پاکستان کو جنت بنادیں گے۔ اس لئے ان کی خاطر تمام ریاستی اداروں نے پورے خلوص کے ساتھ بالاجماع اپنے آپ کو استعمال کیا۔ ایک طرف نواز شریف اور زرداری پر غصہ تھا اور دوسری طرف ان کی اندھی محبت تھی، چنانچہ طاقتور اداروں نے بھی ان کی خاطر سب اداروں کے بازو مروڑ دئیے۔ اقتدار میں آنے سے قبل انہوں نے تاثر دیا تھا کہ وہ اداروں کو مضبوط بنائیں گے لیکن اداروں کی جو بے توقیری ان کے دور میں ہوئی، اس کی مثال نہیں ملتی۔ عدلیہ کتنی بے توقیر ہوئی ہے، اس کے لئے سپریم کورٹ بار کے سابق صدر علی احمد کرد کا اعلیٰ عدلیہ کے ججز کی موجودگی میں کھڑاک ہی کافی ہے۔ قومی احتساب بیورو کو انتقام بیورو اور بلیک میلنگ بیورو میں بدل دیا گیا۔ میڈیا کو پہلے تقسیم اور بے توقیر کیا اور اب اس کا گلادبانے میں لگے ہیں۔ سب سے بڑی زیادتی اپنے سب سے بڑے محسن ادارے کے ساتھ کی۔ پہلے ایک پیج ایک پیج کہہ کر اس کو متنازع بنایا۔ پھر ڈھال بننے کی بجائے اسے اپنی حکومت کے لئے ڈھال بنایا۔ اپوزیشن، میڈیا اور عدلیہ سب کو حسبِ استطاعت اس سے لڑانے کی کوشش کی۔ پھر اس کے خلاف خود میدان میں نکل آئے۔  خان صاحب نے پہلے آرمی چیف کی ایکسٹینشن کے نوٹیفیکیشن کے ذریعے فوج کے ادارے کو بے توقیر کرنے کی کوشش کی اور پھر رہی سہی کسر ڈی جی آئی ایس آئی کے نوٹیفیکیشن کے باب میں پوری کردی۔
یہ بھی پڑھیں:شاہین شاہ آفریدی لاہور قلندرز کی کپتانی کیلئے رضامند

بقول صافی، میری ایمان دارانہ رائے ہے کہ سو شریف اور سو زرداری حریف کی صورت میں اس قومی ادارے کی ساکھ اور وقار کو اتنا نقصان نہیں پہنچاسکتے تھے جو حلیف بن کر تنہا اس شخص نے پہنچا دیا۔چنانچہ اس وقت ریاستی ادارے ومراننکی صورت میں ایک بڑی آزمائش سے دوچار ہیں اور خان صاحب اداروں کے لئے تاریخ کا سب سے بڑا بوجھ بھی بن چکے ہیں۔ لیکن دوسری طرف اپوزیشن اتنی نکمی، تقسیم اور غیرمستقل مزاج ہے کہ خود کوئی متبادل راستہ نکال کر اداروں کے سامنے پیش کرنے کی بجائے اس انتظارمیں بیٹھی ہے کہ کوئی اور اس کی واپسی کا خاکہ تیار کردے جس میں وہ صرف رنگ بھر لیں۔ پیپلز پارٹی نے اس خاکے میں رنگ بھرنے کا کام شروع کردیا ہے جبکہ ن لیگ خاکے کے انتظار میں بیٹھی ہے۔ کھلاڑی کا کام یہ رہ گیا ہے کہ وہ ان خاکوں کا سراغ لگاتے اور انہیں مٹانے کا فریضہ سرانجام دے رہا ہے۔ رہا ملک اور اس کے عوام کا سوال تو اس کے بارے میں سوچنے اور پوچھنے والا اب کوئی نہیں۔ اے اللہ تو ہی اس ملک کی حفاظت فرما۔ آمین!

Related Articles

Back to top button