کیا فوجی اسٹیبلشمنٹ کپتان کو نکالنے پر آمادہ ہو چکی؟

پارلیمنٹ کی دونوں بڑی اپوزیشن جماعتوں پیپلز پارٹی اور نواز لیگ کی جانب سے وزیراعظم عمران خان کو اقتدار سے نکالنے کے اعلان کے باوجود یہ سوال اپنی جگہ موجود ہے کہ کیا کپتان کو اقتدار میں لانے والی فوجی اسٹیبلشمنٹ نے اسے نکالنے کی یقین دہانی کروا دی ہے کیونکہ اگر ایسا نہیں ہے تو پھر اپوزیشن کسی صورت کامیاب نہیں ہو پائے گی۔

پیپلز پارٹی اور نواز لیگ کی قیادت کے مابین ملاقات کے بعد اب نواز شریف کی زیر صدارت وزیراعظم عمران خان کو اقتدار سے بے دخل کرنے پر اصولی اتفاق ہوگیا ہے اور سردیوں کے موسم میں ملکی سیاست تیزی سے گرم ہوتی دکھائی دیتی یے۔

دوسری جانب وزیراعظم عمران خان نے اپوزیشن کو کاؤنٹر کرنے کے لیے بڑے پیمانے پر عوامی رابطہ مہم اور جلسے جلوسوں کا اعلان کر دیا ہے۔ تاہم سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اپوزیشن کی عمران مخالف تحریک اسی صورت کامیاب ہوگئی جب پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ اسٹیبلشمنٹ کو عمران خان کی پشت پناہی سے روکنے میں کامیاب ہوجائیں کیونکہ اگر ایسا نہ ہوا تو حکومتی اتحادی بھی کپتان کا ساتھ نہیں چھوڑیں گے اور اپوزیشن کا وار رائیگاں جائے گا۔

سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اپوزیشن کی جانب سے کپتان حکومت ختم کرنے کے اعلانات کے باوجود ابھی تک اسکی حکمت عملی واضح نہیں ہے کہ ایسا کرنے کے لئے کیا طریقہ کار اپنایا جائے گا۔ ماضی میں عموما جب بھی کسی حکومت کے خلاف تحریک چلائی جاتی ہے اور اسے گرانے کی بات کی جاتی ہے تو اس کے اتحادی سب سے پہلے اسکا ساتھ چھوڑنا شروع کرتے ہیں۔

لیکن ابھی تک قاف لیگ، ایم کیو ایم، جی ٹی اے اور باپ نامی بلوچستان پارٹی بظاہر عمران کے ساتھ کھڑی ہیں۔ یہ تمام جماعتیں اسٹیبلشمنٹ کی پروردہ سمجھی جاتی ہیں اور اسی کے کہنے پر وقت آنے پر حکومتیں بنانے اور گرانے میں کردار ادا کرتی ہیں۔ لیکن چونکہ ابھی تک اسٹیبلشمنٹ اور کپتان کے اختلافات کھل کر سامنے نہیں آئے لہذا ان جماعتوں کو بھی ابھی تک کھل کر سامنے آنے کے لئے نہیں کہا گیا۔

7 فروری کو نواز لیگ کی سینٹرل ایگزیکٹیو کمیٹی کے اجلاس کے بعد لندن میں نواز شریف نے صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ فیصلہ کیا جا چکا ہے کہ عوام دشمن وزیر اعظم کو گھر بھیجا جائے۔ اُن کا کہنا تھا کہ بات بہت سادہ ہے۔ پاکستان کا اس وقت عمران خان نے جو حال کر دیا ہے، غریبوں کے بچوں کو بھوکوں مار دیا ہے، لوگوں کو روٹی سے ترسا دیا ہے اور پاکستان کو تماشہ بنا دیا ہے پوری دنیا میں، اس وقت پاکستان کو کرپٹ ترین ملک قرار دیا گیا ہے۔

آپ مجھے بتائیں کہ ایسے حالات میں کون پاکستانی ہے جو عمران خان سے نجات حاصل نہیں کرنا چاہتا۔ دوسری جانب وزیراعظم عمران خان نے اپوزیشن کو کاؤنٹر کرنے کے لیے ملک گیر سطح پر عوامی جلسے جلوس کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ تاہم ناقدین کہتے ہیں کہ بہتر ہوتا عمران خان جلسے جلوسوں کا منصوبہ بنانے کی بجائے عوام کو ریلیف دینے کا کوئی پلان بناتے جس کا انہیں کوئی فائدہ بھی ہوتا۔

سیاسی تجزیہ کار یاد دلاتے ہیں کہ ماضی میں حزب اختلاف کی جماعتوں نے متعدد بار حکومت مخالف تحریک شروع کرنے کے لیے سر جوڑے ہیں مگر اس کے خاطر خواہ نتائج حاصل نہیں ہو سکے اور یوں ہر بار حکومت مخالف تحریک پر اتفاق، اختلاف میں بدلتا رہا۔ اور یہ اختلافات اس نہج پر پہنچے کہ اپوزیشن اتحاد پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ بھی متحد نہیں رہ سکا، جسے پیپلز پارٹی اور عوامی نیشنل پارٹی نے خیر آباد کہہ دیا۔

وزیراعظم اور آرمی چیف کی نوشکی آمد

پیپلز پارٹی اور ن لیگ کی قیادت کی ملاقات بارے ذرائع کا کہنا ہے کہ پیپلز پارٹی کی قیادت مسلم لیگ کے پاس یہ تجویز لے کر گئی تھی کہ حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد لائی جائے، جس سے نہ صرف لیگی قیادت نے اتفاق کیا ہے بلکہ شہباز شریف نے یہ وضاحت بھی دی ہے کہ پیپلز پارٹی کا مؤقف تو شروع دن سے ہی واضح تھا مگر مسلم لیگ ن میں حکومت کو گھر بھیجنے سے متعلق دو آرا پائی جاتی تھیں۔ تاہم ابھی تک یہ فیصلہ نہیں ہو پایا کہ پہلے تحریک عدم اعتماد پنجاب میں لائی جائے گی، اسپیکر قومی اسمبلی کے خلاف یا وزیراعظم عمران خان کے خلاف؟

سینیئر صحافی اور تجزیہ کار سہیل وڑائچ نے بتایا ہے کہ حزب اختلاف کی جماعتوں میں تحریک عدم اعتماد پر تو اتفاق ضرور ہو گیا ہے مگر ابھی اس کے طریقہ کار کی وضاحت آنا باقی ہے۔ ان کے خیال میں پہلے مرحلے میں وزیراعظم کی بجائے اسپیکر قومی اسمبلی کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانا اور اسے پاس کروانا زیادہ آسان ہو گا چونکہ سپیکر کے خلاف خفیہ ووٹنگ ہوتی ہے جب کہ وزیر اعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد کے دوران سامنے آنا پڑتا ہے۔

ان کے مطابق لاہور میں پانچ فروری کو ہونے والی ملاقات میں مسلم لیگ نے تحریک عدم اعتماد پر پی ڈی ایم کی دیگر جماعتوں کو جبکہ پیپلز پارٹی نے عوامی نیشنل پارٹی اور ق لیگ کو اعتماد میں لینے کا فیصلہ کیا ہے۔ یاد رہے کہ اس وقت نہ صرف بلوچستان عوامی پارٹی عمران خان سے ناراض ہے بلکہ ایم کیو ایم اور قاف لیگ بھی مسلسل تحفظات کا اظہار کر رہی ہیں۔

ایک سوال۔پر سہیل وڑائچ کاکہنا تھا کہ اگر اپوزیشن کی تحریک عدم اعتماد کامیاب نہ بھی ہو سکی تو حکومت کو اس تحریک سے سخت نقصان پہنچے گا۔ ان کے مطابق جب سابق وزیر اعظم بے نظیر بھٹو کے خلاف تحریک عدم اعتماد لائی گئی تو وہ تحریک ناکام ضرور ہوئی تھی مگر اس کے بعد حکومت جلد ختم ہو گئی تھی اور اگلے الیکشن میں پیپلزپارٹی شکست کھا گئی تھی۔ تاہم ان کا کہنا تھا کہ اگر تو اسٹیبلشمنٹ عمران خان کی پشت پناہی سے پیچھے ہٹنے کا فیصلہ کرتی ہے تو پھر اپوزیشن کی تحریک کامیابی سے ہمکنار ہو جائے گی۔

دوسری جانب سینئر اینکر پرسن اور تجزیہ کار عاصمہ شیرازی کا کہنا ہے کہ پیپلز پارٹی اور ن لیگ کے درمیان میز پر چند فارمولے موجود ہیں۔ نمبر ایک: پنجاب میں فوری طور پر تحریک عدم اعتماد لائی جائے اور کامیاب تحریک کی صورت وفاق پر دباؤ بڑھایا جائے۔

نمبر دو: وفاق میں کمزور ہوتی نمبرز گیم میں تحاریک عدم اعتماد کا سہارا لیا جائے جبکہ سڑکوں پر عوامی دباؤ بڑھایا جائے۔ نمبر تین: وزیراعظم کے خلاف عدم اعتماد باقاعدہ کامیابی کی یقین دہانی کے بعد عمل میں لائی جائے کیونکہ ناکامی کی صورت وزیراعظم کے خلاف چھ ماہ تک کسی آئینی تبدیلی کی کوشش ممکن نہ ہو پائے گی۔

عاصمہ کہتی ہیں کہ پنجاب میں تبدیلی پر اتفاق موجود ہے تاہم وہاں باگ کس کے ہاتھ آئے گی اس پر تاحال حتمی فیصلہ نہیں ہو سکا۔ پیپلز پارٹی اور شہباز شریف عرصہ دراز سے اس فارمولے پر زور دیتے دکھائی دے رہے تھے کہ تبدیلی کی سیاست پر عمل نہ کیا تو نہ سیاست مہلت دے گی اور نہ ہی سیاسی کھلاڑی اگلی باری کا انتظار کریں گے۔

عاصمہ کے بقول مقتدر حلقوں کے ڈرائنگ رومز میں بحث نہ تو اپوزیشن کی سیاست پر ہو رہی ہے اور نہ ہی کپتان کی لیاقت پر، تاہم بحث کا اصل موضوع فوجی کمانڈ کی تبدیلی یا توسیع ہی ہے اور یہی وہ اہم معاملہ ہے جس کی راہ میں آنے والی ہر رکاوٹ یا ماحول کو سیاست سمجھ لیا گیا ہے۔ انکے بقول نومبر میں توسیع یا تکمیل کے مراحل سے قبل ایک نئی سیاسی بساط یا پُرانی کی نئی آباد کاری کا معاملہ سیاسی اثر و رسوخ کے لیے اہم ہے۔

پیپلز پارٹی اس بات کو پہلے سے سمجھتی تھی جبکہ ن سمجھ بوجھ کے باوجود اپنی مقبولیت کو اہم فیصلوں میں تولنا چاہتی تھی اور اس کے درمیان ووٹ کو عزت دیتے ہوئے اپنی سیاست کا تعین کرنا چاہ رہی تھی۔ ن لیگ کا مزاحمتی بیانیہ یا پیپلز پارٹی کا مفاہمتی نظریہ اور مولانا کا مصالحتی رویہ ایک شفاف انتخاب کی منزل چاہتا ہے اور منزل کا حصول بظاہر مقتدر حلقوں کی خواہش پر کچھ لو اور دو کی بنیاد پر طے ہو سکتا ہے۔ اب اس سارے منظر نامے میں بظاہر نہ نظر آنے والا کپتان کس طرح کم بیک کرے گا، اسے کسی صورت نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔

Related Articles

Back to top button