آئی ایس آئی پر الزام لگانے والا جج انصاف کا متلاشی

آئی ایس آئی کی کردار کشی کے جرم میں بطور جج اسلام آباد ہائی کورٹ سے فارغ کیے جانے والے جسٹس ریٹائرڈ شوکت عزیز صدیقی پچھلے کئی برسوں سے انصاف کی تلاش میں سرگرداں ہیں اور سپریم کورٹ میں اپنی برطرفی کے خلاف اپیل دائر کر رکھی ہے۔

سابق چیف جسٹس ریٹائرڈ گلزار احمد اپنے دور میں ان کی اپیل دبا کر بیٹھے رہے لیکن اب ان کی ریٹائرمنٹ کے بعد جسٹس شوکت صدیقی نے سپریم کورٹ میں ایک نئی پٹیشن دائر کرتے ہوئے استدعا کی ہے کہ ان کی اپیل پر 10 فروری سے دوبارہ سماعت شروع کی جائے۔

جسٹس (ر) شوکت عزیز صدیقی کی ایک صفحے پر مشتمل درخواست میں کہا گیا کہ درخواست گزار کے متعدد قانونی، بنیادی اور آئینی حقوق اس مقدمے سے منسلک ہیں لہذا ضروری ہے کہ اسے لٹکانے کی بجائے اب جلد از جلد فیصلہ کیا جائے۔ خیال رہے کہ جسٹس ریٹائرڈ شوکت صدیقی کی پٹیشن کا مستقبل اب نئے چیف جسٹس عمر عطا بندیال کے ہاتھ میں ہے جنہیں ماضی میں جسٹس گلزار احمد کا سایہ تصور کیا جاتا تھا۔

یاد رہے کہ شوکت عزیز صدیقی اپنی برطرفی کے خلاف اپیل کے فیصلے کے انتظار میں گزشتہ سال جون میں ہائی کورٹ کے جج کے عہدے سے ریٹائر ہوگئے تھے۔انہوں نے سپریم کورٹ میں دائر کردہ اپنی نئی درخواست میں موقف اختیار کیا ہے کہ انکی برسوں سے زیر التوا آئینی درخواست 10 فروری کو سماعت کے لیے مقرر کی جائے۔

یاد رہے کہ انکی جانب سے ماضی میں بھی کئی بار کیس کی جلد سماعت کے لیے اسی طرح کی درخواستیں دائر کی جاچکی ہیں لیکن جسٹس گلزار انہیں دبا کر بیٹھے رہے کیونکہ وہ پاکستان کی طاقتور انٹیلیجنس اسٹیبلشمنٹ کے غضب کا نشانہ نہیں بنانا چاہتے تھے۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کے سابق جج نے سپریم جوڈیشل کی رائے کے خلاف اور 11 اکتوبر 2018 کے اس نوٹیفکیشن کے خلاف اپیل جمع کرائی تھی جس کے تحت انہیں جولائی 2018 میں ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن راولپنڈی میں آئی ایس آئی کے سیاسی کردار بارے تقریر کرنے پر جج کے عہدے سے ہٹا دیا گیا تھا۔

نور مقدم قتل، عدالت نے تمام ملزموں کو سوالنامہ دیدیا

جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے ریاست کے انتظامی محکموں بالخصوص آئی ایس آئی کے بعض افسران بشمول سابق آئی ایس آئی سربراہ لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید کی ہائی کورٹ کے یبنچز کی تشکیل میں مداخلت کے خلاف ریمارکس دیے تھے۔ انہوں نے کہا تھا کہ فیض حمید اپنی مرضی کے بیچ بنوا کر نواز شریف اور مریم نواز کے خلاف مرضی کے فیصلے حاصل کرنا چاہتے ہیں۔

یاد رہے کہ شوکت عزیز صدیقی کی اپیل کی آخری سماعت پچھلے برس 7 دسمبر کو ہوئی تھی۔ موجودہ چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں پانچ رکنی بینچ نے شوکت صدیقی کے وکیل حامد خان کی جانب سے سپریم جوڈیشل کونسل پر الزام عائد ہونے کے بعد مزید کارروائی ملتوی کر دی تھی۔

یاد رہے کہ سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں سپریم جوڈیشل کونسل نے جسٹس شوکت عزیز صدیقی کو جج کے عہدے سے ہٹایا تھا، ان کے وکیل حامد خان نے سپریم جوڈیشل کونسل کے ججوں پر آئی ایس آئی کے زیر اثر فیصلہ دینے کا الزام عائد کیا تھا۔ حامد خان کے دعووں کا بینچ پر اچھا اثر نہیں ہوا اور ان الزامات پر جسٹس عمر عطا بندیال نے یہ کہتے ہوئے ناراضی کا اظہار کیا کہ انہیں اس طرح کے ریمارکس سن کر بہت دکھ ہوا ہیں۔

جسٹس شوکت عزیز صدیقی کا اپنی تازہ درخواست میں کہنا ہے کہ یہ معاملہ عوامی اہمیت کا ہے کیونکہ درخواست میں عدلیہ کی آزادی، قانون کی حکمرانی اور آئین کی بالادستی جیسے اہم سوالات اٹھائے گئے ہیں۔

سابق جج شوکت عزیز صدیقی نے اپنی اصل درخواست میں عدالت عظمیٰ سے درخواست کی تھی کہ وہ اعلیٰ عدالتوں کے تمام چیف جسٹسز کو بینچز کو تشکیل دینے یا تحلیل کرنے، مقدمات سپرد کرنے یا مقدمات کا شیڈول جاری کرنے کے لیے دستیاب صوابدید کا تعین کرے یا ان معاملات کو ریگولیٹ کرے۔

درخواست گزار شوکت عزیز صدیقی نے اپنی درخواست میں مؤقف اختیار کیا تھا کہ عدالت کا چیف جسٹس متعلقہ عدالت کے چار سب سے سینئر ججوں کے ساتھ معنی خیز مشاورت کے بعد اور خاص وضاحت شدہ اور طے شدہ معیارات کے مطابق ہی ان معاملات میں اپنی صوابدید کا استعمال کر سکتا ہے۔

Related Articles

Back to top button