عدالتی فیصلہ صدارتی نظام کے حمایتیوں کے لیے جھٹکا

لاہور ہائیکورٹ نے ملک میں صدارتی نظام کے نفاذ کے مطالبے کو آئین کے بنیادی ڈھانچے کے برخلاف قرار دیتے ہوئے مسترد کر کے صدارتی نظام کے حمایتیوں کا مکو ٹھپ دیا ہے۔ لاہور ہائی کورٹ نے قرار دیا ہے کہ پاکستان میں صدارتی نظام حکومت کا مطالبہ آئین کے بنیادی ڈھانچے کے منافی ہے۔

جسٹس جواد حسن نے صدارتی نظام کے نفاذ کے لیے ریفرنڈم کرانے کی درخواست پر فیصلہ کرنے کے لیے کابینہ ڈویژن کو ہدایت دینے کی درخواست کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ آئین کی دفعہ 199 کے تحت کسی شخص کو صرف وہ کام کرنے کے لیے حکم نامے کی رٹ جاری کی جا سکتی ہے جو قانون کے تناظر میں کرنا ضروری ہو۔

یاد رہے کہ حفیظ الرحمٰن چوہدری نامی ایک شہری نے بیرسٹر احمد پنسوٹا کے توسط سے دائر پٹیشن میں متعدد درخواستیں کی تھیں جن میں کابینہ ڈویژن کو اس ہدایت کی استدعا بھی شامل تھی کہ وہ موجودہ نظام پر غور، بحث اور جائزہ کے لیے اس معاملے کو پارلیمنٹ میں بھیجے اور موجودہ نظام کا جائزہ لینے اور لوگوں کی رائے جاننے کے لیے ریفرنڈم کا انعقاد کرے۔

جج نے وکیل سے کہا کہ وہ پٹیشن کے قابل سماعت ہونے پر عدالت کو مطمئن کریں، کیونکہ یہ درخواست آئین کے بنیادی ڈھانچے اور پاکستان کی اعلیٰ عدالتوں کے تشکیل دیے گئے قانون کے خلاف ہے۔ بیرسٹر احمد پنسوٹا نے وضاحت کی کہ پٹیشن دائر کرنے کی وجہ صرف یہ تھی کہ درخواست گزار کی کابینہ ڈویژن کو ارسال کردہ مختلف درخواستوں پر ابھی تک غور نہیں کیا گیا اور نہ ہی فیصلہ کیا گیا۔ تاہم جسٹس جواد حسن نے اپنے فیصلے میں کہا کہ ملک میں ریفرنڈم کرانے کی درخواست جمہوریت سے متعلق آئین کے بنیادی ڈھانچے کے خلاف ہے۔

لاہور ہائیکورٹ کی رولنگ سے آئینی و قانونی ماہرین کے موقف کی بھی توثیق ہوگئی ہے کہ پاکستان میں پارلیمانی جمہوری نظام کی جگہ صدارتی نظام رائج کرنے کے لئے نئی قانون ساز اسمبلی کی تشکیل کے بعد آئین کو ازسرنو تبدیل کرنا پڑے گا کیونکہ 1973 کا موجودہ آئین پارلیمانی جمہوری نظام کے علاوہ کسی دوسرے نظام سے مطابقت نہیں رکھتا۔

کئی نامور آئینی اور قانونی ماہرین نے پاکستان میں صدارتی نظام کے نفاذ کو ناممکن قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ ایسا کرنے کے لیے موجودہ پارلیمنٹ کے ذریعے کسی آئینی ترمیم کی ضرورت نہیں بلکہ نئی آئین سازی کے لیے ایک نئی قانون سازی اسمبلی کی ضرورت ہوگی۔ لہذا بڑا سوال یہ ہے کہ یہ آئین ساز اسمبلی کیسے وجود میں آئے گی کیونکہ آئین میں اس کا کوئی طریقہ کار نہیں دیا گیا۔

فیصل واوڈا کی فراغت عمران کے لیے بڑا جھٹکا کیوں ہے؟

ماہرین کے مطابق آئین میں کوئی ایسی ترمیم نہیں کی جا سکتی جس سے آئین کا بنیادی ڈھانچہ ہی تبدیل ہو جائے۔ موجودہ رلیمنٹ کو 1973 کے آئین کے تحت آئین میں ترمیم کا حق ہے، تنسیخ کا نہیں۔ اپنے موقف کے دفاع میں قانونی ماہرین کہتے ہیں کہ ’1973 کا آئین پارلیمانی ہے صدارتی نظام نہیں۔ اس لیے صدارتی نظام لانے کا مطلب یہ ہو گا کہ آئین کی تنسیخ کرکے ایک نئی عمارت کھڑی کریں۔یہ ایسا ہی ہے جیسے ’ایک عمارت کو گرا کر دوسری عمارت کھڑی کی جائے۔

ملک میں اس وقت پارلیمانی نظام حکومت رائج ہے، جسے ایک قانون ساز اسمبلی نے تخلیق کیا اور 14 اگست 1973 کو اس کا نفاذ ہوا۔ قانونی ماہرین اس مفروضے کو بھی مسترد کرتے ہیں کہ آٹھویں اور 17 ویں ترمیم کے بعد ملک کا آئین صدارتی بن گیا تھا۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ ایسا نہیں ہوا تھا بلکہ وزیراعظم کے اختیارات لے کر صدر مملکت کو زیادہ طاقتور کیا گیا ہے۔ تب بھی آئین کا بنیادی ڈھانچہ تبدیل نہیں ہوا تھا۔ آٹھویں اور 17 ویں ترمیم کے بعد یہ ضرور ہوا تھا کہ صدر مملکت اپنی مرضی سے اسمبلی کو تحلیل کر سکتے تھے اور آرمی چیف کو نامزد کرنے کا اختیار بھی وزیراعظم کے بجائے صدر مملکت کے پاس چلا گیا تھا۔

اس طاقتور اختیار کے باوجود ملک میں پارلیمانی نظام حکومت چلتا رہا۔ آئین کی سمجھ بوجھ رکھنے اس نکتے پر قائل ہیں کہ موجودہ آئین کے بنیادی ڈھانچے کو کسی ترمیم کے ذریعے تبدیل نہیں کیا جا سکتا آور آئینی ترمیم کرنے کی طاقت اس وقت کسی کے پاس نہیں ہے، چاہے کسی حکومت کے پاس اسمبلی اور سینیٹ میں کتنی اکثریت ہی کیوں نہ ہو۔ ملک کی اعلیٰ عدلیہ بھی موجودہ آئین کی پیداوار ہے اور اس کے پاس بھی اسی آئین کو تبدیل کرنے کا اختیار نہیں۔

ملک میں صدارتی نظام حکومت متعارف کروانے کی بحث جس قدر دلچسپ ہے اسے رائج کرنا اتنا ہی مشکل کام ہے کیونکہ کسی جماعت کے منشور میں صدارتی نظام متعارف کروانے کی کوئی شق شامل نہیں ہے۔ آئینی ماہرین کا کہنا ہے کہ نئے آئین کے لیے ایک نئی قانون سازی اسمبلی کی ضرورت ہوگی لیکن یہ اسمبلی کیسے وجود میں آئے گی اس کا کھوج لگانے کی ضرورت ہے کیونکہ آئین میں اس حوالے سے کوئی طریقہ واضح نہیں کیا گیا۔

Related Articles

Back to top button