پشاوردھماکا:اموات 65 ہوگئیں‌ ، ٹی ٹی پی کا اظہار لاتعلقی

پشاور کے معروف قصہ خوانی بازار کی گلی کوچہ رسالدار میں شیعہ مسلک کی مرکزی جامع مسجد میں نماز جمعہ کے دوران ہونے والے حملے میں ہلاکتوں کی تعداد 65 تک پہنچ گئی ہے۔ترجمان لیڈی ریڈنگ ہسپتال محمد عاصم اور پشاور پولیس کے سربراہ محمد اعجاز خان نے ان ہلاکتوں کی تصدیق کی ہے۔شدت پسند تنظیم نام نہاد دولتِ اسلامیہ نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کر لی ہے۔
اس حوالے سے دولتِ اسلامیہ کے خبر رساں ونگ اعماق نے اپنی ویب سائٹ پر ایک پریس ریلیز اور مبینہ حملہ آور کی تصویر بھی جاری کی ہے۔دوسری جانب تحریکِ طالبان پاکستان نے کہا ہے کہ ’فرقہ وارانہ جنگیں اسلام اور عالمِ اسلام کے مفاد میں نہیں‘، اس لیے وہ پشاور میں ہونے والے واقعات سے لاتعلقی کا اظہار کرتے ہیں۔پشاور پولیس کے سربراہ محمد اعجاز خان نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ سات لاشیں ناقابلِ شناخت ہیں جبکہ دو کٹے ہوئے پیر بھی ملے ہیں جن کے بارے میں خیال ہے کہ وہ بمبار کے ہیں۔
اُنھوں نے کہا کہ وہ ڈی این اے ٹیسٹنگ کے ذریعے بمبار کی شناخت کا تعین کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، اموات کی تعداد 62 ہو گئی ہے جس میں 10 سال سے کم عمر کے سات بچے بھی ہیں۔اعجاز خان نے کہا کہ حکام حال ہی میں افغانستان سے پاکستان آنے والے افراد کے بائیو میٹرک ڈیٹا کی پڑتال کر رہے ہیں۔پشاور کے بم ڈسپوزل یونٹ کے سربراہ رب نواز خان نے اے ایف کو بتایا کہ حملہ آور نے پانچ سے آٹھ کلو دھماکہ خیز مواد استعمال کیا۔یہ دھماکہ ایک ایسے وقت میں ہوا جب پاکستان اور آسٹریلیا کے درمیان ٹیسٹ سیریز کے پہلے میچ کا پہلا دن تھا۔ آسٹریلیا کی ٹیم سکیورٹی وجوہات کی بنا پر 24 سال سے پاکستان نہیں آئی تھی تاہم حالیہ کچھ برسوں میں سیکورٹی صورتحال کے بہتر ہونے کے بعد کئی بین الاقوامی ٹیمیں اور کھلاڑی پاکستان آ رہے ہیں۔
ایس ایس پی آپریشنز ہارون رشید نے بتایا ہے کہ حملہ آور نے پہلے گیٹ پر موجود پولیس کے محافظوں کو نشانہ بنایا جس کے نتیجے میں ایک پولیس کانسٹیبل ہلاک جبکہ دوسرا شدید زخمی ہوا۔عینی شاہدین کے مطابق جس وقت حملہ کیا گیا اس وقت مسجد میں نمازیوں کی بڑی تعداد موجود تھی جبکہ حملہ آور نے دھماکہ کرنے سے قبل فائرنگ بھی کی۔علی اصغر نامی ایک عینی شاہد نے بتایا کہ اُنھوں نے ایک شخص کو جمعے کی نماز سے قبل مسجد میں داخل ہوتے ہوئے دیکھا جس نے پھر ‘ایک ایک کر کے’ نمازیوں کو گولیاں مارنی شروع کر دی۔ اس کے بعد اس نے خود کو دھماکے سے اڑا لیا۔

ایک اور عینی شاہد زاہد خان نے اے ایف پی کو بتایا کہ ‘میں نے ایک شخص کو مسجد میں داخلے سے قبل دو پولیس اہلکاروں پر فائرنگ کرتے دیکھا۔ کچھ ہی لمحوں بعد میں نے ایک زوردار دھماکہ سنا۔اس واقعے کے عینی شاہد علی حیدر نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ جس وقت نمازِ جمعہ کی تیاری جاری تھی اس وقت کم از کم ایک حملہ آور پستول لے کر مسجد میں آیا اور نمازیوں کو نشانہ بنانا شروع کر دیا اور فائرنگ کے بعد حملہ آور نے بم کا دھماکہ کیا، دھماکے کے بعد اہل علاقہ میں شدید غم وغصہ پایا گیا اور کسی بھی پولیس والے کو متاثرہ مسجد میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دی جا رہی تھی تاہم پاکستانی فوج کے اہلکاروں کے آنے پر صورتحال نارمل ہوئی۔
ایس ایس پی آپریشنز نے مزید بتایا کہ اس حوالے سے کوئی مخصوص تھریٹ الرٹ جاری نہیں کیا گیا تھا بلکہ عمومی الرٹ کے تحت سکیورٹی تعینات تھی۔صحافی محمد زبیر خان کے مطابق مرکزی مسجد کوچہ رسالدار پشاور میں مرکزی شیعہ مسجد ہے جہاں پر تقریباً پورے پشاور سے لوگ جمعہ کی نماز پڑھنے آتے ہیں، واقعے کے ایک عینی شاہد نے بتایا کہ تنگ راستوں کے باعث زخمیوں کو ہسپتال پہنچانے میں بھی مشکلات کا سامنا رہا کیونکہ جائے حادثہ تک گاڑی نہیں جا سکتی ہے۔عینی شاہد کا کہنا تھا کہ یہی وجہ ہے کہ زخمیوں کو تین سے چار سو میٹر تک ہاتھوں اور چارپائیوں پر اٹھا کر سڑک تک پہنچایا گیا اور وہاں سے پھر ایمبولینس کے ذریعے سے ہسپتال لے جایا گیا۔

Related Articles

Back to top button