انٹرنیٹ سروس پروائیڈرز نےحکومتی سوشل میڈیا قوانین مسترد کر دیئے


انٹرنیٹ سروس فراہم کرنے والے اداروں اورڈیجیٹل حقوق کے کام کرنے والے ایکٹوسٹس سمیت تمام اسٹیک ہولڈرز نے وزارت انفارمیشن ٹیکنالوجی کی طرف سے نافذ کردہ سوشل میڈیا قواعد کو سخت ظالمانہ قرار دیتے ہوئے مسترد کردیا ہے۔
انٹرنیٹ سروس پرووائیڈر آف پاکستان نے نئے حکومتی قواعد کو مسترد کردیا ہے اور نئے سوشل میڈیا قواعد کے خلاف عدالت سے رجوع کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ آئی ایس پی اے کے کنوینر وہاج سراج کے مطابق ان قواعد کے خلاف ایک حکمت عملی تشکیل دیں گے کیوںکہ یہ انٹرنیٹ سروسز فراہم کرنے والوں کیلئے مالی ضمانت کی خلاف ورزی ہے’۔انہوں نے قواعد کی متعدد شقوں کا حوالہ دیا بشمول 9(3) کا جس میں کہا گیا ہے کہ سوشل میڈیا کمپنی اور انٹرنیٹ سروس فراہم کرنے والوں کو کسی شناخت کیے گئے آن لائن مواد کی نشاندہی کے لیے مناسب طریقہ کار مقرر کرنا ہوگا۔
ڈیجیٹل حقوق کے لیے کام کرنے والے ایکٹِوسٹ نے قواعد پر عدم اطمینان کا اظہار کیا اور دعویٰ کیا کہ حکومت نے نیشنل کوآرڈینیٹر کے دفتر کے قیام کے سوا اسٹیک ہولڈرز کے تمام تحفظات کو نظر انداز کردیا ہے۔ان قواعد کے تحت پاکستان میں پاکستان ٹیلی کمیونکیشن اتھارٹی کی یا انٹرنیٹ سروس فراہم کرنے والوں یا سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کی فہرست میں شامل 5 لاکھ صارف والے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کو پی ٹی اے سے رجسٹر کروانا ہوگا۔ان کمپنیوں کو 9 ماہ کے عرصے میں حقیقی پتے کے ساتھ اپنا مستقل رجسٹرڈ دفتر ترجیحاً اسلام آباد میں قائم کرنا ہوگا۔
دراصل حکومت نے سوشل میڈیا کو قابو کرنے کے سٹیزن پروٹیکشن اگینسٹ آن لائن ہارم رولز 2020 میں ترامیم کر کے نئے قوانین نافذ کیے ہیں جن کے تحت سوشل میڈیا سائٹس پر کسی بھی طرح کے حکومت مخالف مواد کی اشاعت پر پابندی لگا دی گئی ہے جب کہ کسی حکومتی شخصیت کی نقل اتارنے جیسے مواد کو بھی شائع یا نشر نہیں کیا جا سکے گا۔ تاہم نئے قوانین نافذ کرتے وقت حکومت مخالف مواد سے متعلق کوئی وضاحت نہیں کی گئی کہ ایسے مواد کو کس طرح سے جانچا جائے گا؟
نئے قوانین میں بتایا گیا ہے کہ انکے نفاذ کے تین ماہ کے اندر فیس بک، ٹوئٹر، ٹک ٹاک، یو ٹیوب اور گوگل سمیت دیگر کمپنیاں اپنے نمائندے پاکستان میں تعینات کریں گی جب کہ آئندہ 9 ماہ کے دوران وہ مقامی دفاتر کھولنے کی پابند ہوں گی۔ ساتھ ہی سوشل میڈیا کمپنیز کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ قوانین نافذ ہونے کے 18 ماہ کے اندر ڈیٹا سرور کی مقامی طور پر تشکیل دیں گی اور ساتھ ہی وہ صارفین کو آسان زبان میں سوشل میڈیا کے ضوابط بھی سمجھائیں گی.
وفاقی حکومت کا دعویٰ ہے کہ اس نے سٹیزن پروٹیکشن اگینسٹ آن لائن ہارم رولز 2020 میں 100 سے زائد تنظیموں، انسانی حقوق سے متعلق کام کرنے والے اداروں اور شخصیات کی جانب سے تنقید کے بعد ترامیم کرکے نئے ضوابط جاری کیے ہیں۔ وفاقی حکومت نے نئے قوانین کو ریموول اینڈ بلاکنگ ان لا فل آن لائن کنٹینٹ 2020 کا نام دیا ہے۔ حکومت کی جانب سے جاری کردہ ضوابط کے مطابق سوشل میڈیا سائٹس پر ہر طرح کے فحش اور نازیبا مواد کی اشاعت تا تشہیر پر پابندی ہوگی جب کہ غلط معلومات کے شیئر کرنے پر بھی پابندی لاگو ہوگی۔
نئے سوشل میڈیا قوانین کے مطابق سوشل میڈیا کمپنیاں پاکستان کی سلامتی، وقار اور دفاع کے خلاف ہر طرح کا مواد ہٹانے کی پابندی ہوں گی۔ قوائد میں بتایا گیا ہے کہ سوشل میڈیا سائٹس پر کسی طرح کے حکومت مخالف مواد کی اشاعت پر پابندی ہوگی جب کہ کسی بھی شخصیت کی نقل اتارنے جیسے مواد کو بھی شائع یا نشر نہیں کیا جا سکے گا۔ نئے قوائد کے مطابق مذہبی منافرت اور توہین مذہب، توہین رسالت سے متعلق ہر قسم کے مواد پر پابندی ہوگی، ساتھ ہی پاکستان کے ثقافتی و اخلاقی رجحانات کے خلاف مواد پر بھی پابندی ہوگی۔ نئے قوانین میں بتایا گیا ہے کہ ہر طرح کے تشدد، دہشت گردی اور استحصال پر مبنی مواد پر بھی پابندی ہوگی جب کہ بچوں کو متاثر کرنے والے مواد کو بھی شائع یا نشر کرنے کی اجازت نہیں ہوگی۔نئے قوانین میں واضح کیا گیا ہے کہ کسی بھی طرح کے دہشت گردی کے مواد کو براہ راست نہیں دکھایا جائے گا اور ساتھ ہی کسی طرح کے فحش مواد کو بھی براہ راست نشر نہیں کیا جاسکے گا۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button