عمران اورعلوی اپنا ایجنڈا آگے بڑھانے میں مصروف


سپریم کورٹ آف پاکستان کی جانب سے غیر آئینی طور پر قومی اسمبلی توڑنے کا کیس لٹکائے جانے کے بعد وزیراعظم عمران خان اور صدر عارف علوی مل کر اپنا سیاسی ایجنڈا آگے بڑھانے میں مصروف ہیں اور انہیں روکنے والا کوئی نہیں۔
قومی اسمبلی تحلیل ہونے کے بعد قانونی طور پر عمران خان وزیراعظم نہیں رہے تاہم صدر عارف علوی نے انھیں نگران وزیراعظم کے چناؤ تک اپنی ذمہ داریاں جاری رکھنے کے لیے کہا ہے۔ اس دوران صدر نے وزیراعظم کو یہ اختیار بھی دے دیا ہے کہ وہ اپوزیشن لیڈر کے ساتھ مل کر نگران وزیر اعظم کے انتخاب کا عمل شروع کر دیں، لیکن حقیقت یہ ہے کہ قومی اسمبلی توڑے جانے کے بعد نہ تو اس وقت ملک میں کوئی اپوزیشن لیڈر موجود ہے اور نہ ہی منتخب وزیر اعظم کیونکہ کابینہ ڈویژن عمران خان کو بطور وزیراعظم ڈی نوٹیفائی کر چکی ہے۔ دوسری جانبب شہباز شریف نے غیر آئینی صدر اور غیر آئینی وزیراعظم کے تمام تر اقدامات کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ اس دوران صدر عارف علوی نے عمران کو بطور وزیراعظم کام جاری رکھنے کی اجازت دے دی ہے اور موصوف اپنا سیاسی ایجنڈا آگے بڑھانے میں مصروف ہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ عمران اب کتنے بااختیار وزیراعظم ہیں۔
قانونی ماہرین کہتے ہیں کہ عمران خان اب وزیراعظم نہیں لیکن چیف ایگزیکٹو کی عدم موجودگی میں انھیں وزیراعظم کے دفتر میں رہنا ہو گا اور یہ آٹھ دن کی بات ہے۔‘ پارلیمانی امور کے ماہر اور پلڈاٹ کے سربراہ احمد بلال محبوب کہتے ہیں کہ ‘آئین میں جو بات لکھی گئی ہے وہی بالاتر ہو گی، یہ پارلیمنٹ کی بالادستی کا معاملہ نہیں بلکہ ریاستی امور کا معاملہ ہے تاکہ وزیر اعظم کی عدم موجودگی میں خلا پیدا نہ ہو۔ ایسا اس لیے کیا جاتا ہے۔‘ اس معاملے پر الیکشن کمیشن کے سابق رکن کنور دلشاد کہتے ہیں کہ عمران خان ‘اب بس نمائشی وزیراعظم ہیں وہ کچھ بھی نہیں کر سکتے، نہ کوئی ٹرانسفر، اور نہ کوئی حکم نامہ جاری کر سکتے ہیں جو وہ اسمبلی تحلیل ہونے سے پہلے تک کر سکتے تھے۔ اب وہ ایسا کچھ نہیں کر سکتے۔ اب وہ دفتر میں بیٹھ کر چائے پی سکتے ہیں اور تسبیح پڑھ سکتے ہیں بس۔ لیکن اس صورت میں کرسی کھو دینے والا وزیراعظم کیا کیا اختیارات رکھتا ہے اور نگران وزیراعظم کو تعینات کرنے کے لیے کتنے دن کی مہلت ہوتی ہے؟ احمد بلال محبوب کہتے ہیں کہ اگرچہ وزیراعظم کے پاس تب کوئی اختیار نہیں رہتا لیکن کچھ بھی بلیک اینڈ وائٹ میں لکھا ہوا نہیں، اس لیے لوگ ایسے وزرائے اعظم پر اعتبار نہیں کر رہے۔
دوسری جانب ناقدین کہتے ہیں کہ اگر وزیراعظم کے پاس واقعی کوئی اختیار نہیں تو وہ اب بھی پاکستان ٹیلی ویژن پر بیٹھ کر اپوزیشن کو گالیاں کیسے دے رہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ عمران خان ایک سیاسی جماعت کے سربراہ ہیں اور اب جبکہ وہ اصلی وزیر اعظم نہیں رہے، انہیں سرکاری ٹی وی اپنا سیاسی ایجنڈا آگے بڑھانے کے لئے استعمال کرنے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔
اس حوالے سے ماہر قانون شاہ خاور کہتے ہیں کہ جیسے نگراں حکومت کچھ نہیں کر سکتی، ایسے ہی اس وقت عمران خان بھی اس عارضی ذمہ داری کے دوران کوئی اہم فیصلہ نہیں کر سکتے۔ ‘اس بارے میں سپریم کورٹ آف پاکستان کا فیصلہ موجود ہے کہ نگراں حکومت نے کوئی اہم فیصلہ نہیں کرنا ہوتا نہ کوئی پوسٹنگ اور ٹرانسفر کرنی ہوتی ہے۔ یہ سٹاپ گیپ ارینجمنٹ ہوتی ہے۔ روزانہ کی بنیاد پر حکومت چلانے کے لیے آپ ہوتے ہیں اہم فیصلہ نہیں کر سکتے اور میرا خیال ہے اس موجودہ ممکنہ صورت میں بھی ایسا ہی ہو۔‘ کنور دلشاد کہتے ہیں کہ ‘حکومت ختم ہو چکی ہے۔ کابینہ تو اسمبلی تحلیل ہوتے ہی ختم ہو گئی تو جب کیبنٹ نہیں ہو گی تو حکومت نہیں ہو گی۔ تو پھر وزیراعظم کہاں سے۔‘
دودری جانب سابق وفاقی وزیر برائے اطلاعات قانون فواد چوہدری نے اعلان کیا ہے کہ قومی اسمبلی میں قائدِ حزبِ اختلاف شہباز شریف کو نگراں حکومت کی تشکیل کے لیے وزیرِ اعظم کی جانب دو نام بھیج دیے گئے ہیں۔ اس معاملے پر کنور دلشاد کہتے ہیں کہ آئین کا آرٹیکل 224 واضح طریقہ بتایا ہے کہ لازمی ہو گا کہ تین دن کے اندر نگراں وزیراعظم کے لیے کسی نہ کسی پر اتفاق رائے کرنا ہوگا۔ عمران کو اپوزیشن لیڈر سے مشاورت کرنی ہو گی۔ یا خط و خطابت کرنی ہوگی دونوں جانب سے دو، دو نام تجویز ہوں گے۔‘ وہ کہتے ہیں کہ ‘چاروں نام پارلیمانی کمیٹی کے پاس جانے ہوتے ہیں لیکن یہاں تو اسمبلی تحلیل ہے ختم ہو گئی ہے تو پھر سینیٹ کے آٹھ اراکین کی کمیٹی بنے گی وہاں بھی اتفاق نہ ہوا تو آئین ان کو حکم دیتا ہے کہ دو دن میں فیصلہ کریں پھر فوری طور پر الیکشن کمیشن کو نام بھجوائیں۔‘
پارلیمانی امور کے ماہر احمد بلال محبوب بتاتے ہیں کہ اس کمیٹی میں اپوزیشن سے چار اور حکومت سے چار ارکان کی شمولیت ضروری ہوتی ہے اور تحلیل ہو چکی اسمبلی کے سپیکر ہی اس کمیٹی کا قیام عمل میں لائیں گے۔ آئین کی شق 53 کے تحت جب تک نئی اسمبلی میں نئے سپیکر کا انتخاب عمل میں نہ آ جائے، تب تک موجودہ سپیکر اپنے عہدے پر رہیں گے۔ کنور دلشاد کہتے ہیں ‘یہاں رائے نہیں حکم دنیا ہوتا ہے پھر الیکشن کمیشن کے لیے بھی لازم ہے کہ 48 گھنٹوں میں فیصلہ کریں اور الیکشن کمیشن کا فیصلہ یعنی وہ کس کو پھر نگران وزیراعظم منتخب کرتا ہے کو کسی عدالت میں چیلنج نہیں کر سکتا۔‘ وہ کہتے ہیں کہ ‘یہاں جو بات کی جا رہی ہے کہ عمران خان شاید زیادہ عرصے تک وزیراعظم کے دفتر میں وقت گزار سکتے ہیں یہ بالکل غلط ہے، غیر معینہ مدت کہنا غلط ہے اصول سات دن کا ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ آرٹیکل 224 کے تحت الیکشن کمیشن نے لازماً انتخابات کروانے ہیں۔ ‘اگر حکومت پانچ سال پورے کرتی اوراسمبلی تحلیل ہوتی تو پھر تو 60 دن میں کروانے ہوتے اب اگر صوبائی اسمبلیاں بھی تحلیل ہو جاتی ہیں تو بھی 90 دن میں انتخابات کا عمل یقینی بنانے کے لیے الیکشن کمیشن نوٹس جاری کرے گا اور ابھی الیکشن کمیشن کو اسمبلی تحلیل ہونے کا نوٹیفکیشن آ گیا ہے تو بس یہ اگلے ایک دو دن یا چند گھنٹوں کی بات ہے۔‘
لیکن یہاں یہ بات بھی قابل غور ہے کہ سپریم کورٹ اس وقت ازخود نوٹس کی سماعت کر رہی ہے۔ ماہرِ قانون سلمان اکرم راجہ کہتے ہیں کہ ‘وزیرِ اعظم کا اپنا عہدہ تو ابھی موجود ہے جب تک کہ نگراں سیٹ اپ نہیں آ جاتا، تاہم اگر سپریم کورٹ یہ کہے کہ سارا عمل ہی غلط ہوا ہے اور معاملات کو وہیں جانا چاہیے جہاں وہ سپیکر کی رولنگ سے قبل تھے تو پھر عمران خان کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد پر ووٹنگ ہو گی اور اس کے بعد جو بھی صورتحال ہو گی اس پر دیکھنا ہو گا۔‘ ماہرین کہتے ہیں اگر سپریم کورٹ اتوار کے روز اٹھائے جانے والے اقدامات کو غیر آئینی قرار نہیں دیتی تو بھی اب سے لے کر آٹھ یا نو دن کے اندر عمران وزیرِ اعظم نہیں رہیں گے اور نئے عام انتخابات کے موسم میں چلا جائے گا کیونکہ نگران حکومت کو 90 دن کے اندر انتخابات کروانے ہوں گے۔

Related Articles

Back to top button