کرنا وائرس اور نزلہ زکام میں فرق کیسے کیا جا سکتا ہے؟

کورونا وائرس کے تیز تر پھیلاؤ کے پیش نظر دنیا کو ایک ایسے ’نامعلوم خطرے‘ کا سامنا ہے جس کی زیادہ تر علامات نزلہ زکام یا فلو سے ملتی جلتی ہیں اس لئے یہ اندازہ کرنا مشکل ہے کہ کوئی شخص کورونا وائرس کا شکار ہے یا نزلہ زکام کا۔
چین کے شہر ووہان سے نکلنے والے کورونس وائرس کو نویل کورونا وائرس یا کووڈ 19 کا بھی نام دیا گیا ہے جسکا ڈر آہستہ آہستہ ہمارے دماغوں پر حاوی ہوتا جا رہا ہے کیونکہ یہ نزلہ اور زکام سے اتنا زیادہ ملتا جلتا ہے کہ تشخیص کیے بغیر پتہ ہی نہیں چل سکتا کہ کوئی شخص کورونا وائرس کا شکار ہے یا سادہ نزلہ اور زکام کا۔ آج کل فلُو یا نزلے زکام کا موسم ہے، جسے دیکھیں چھینکیں مارتا یا ناک صاف کرتا دکھائی دیتا ہے۔ جسے زکام ہوتا ہے وہ خود ہی کہہ دیتا ہے کہ مجھ سے دور رہیں کہیں آپ کو بھی جراثیم نہ لگ جائیں۔ یا پھر آپ خود ہی اس متاثرہ شخص کے پاس جانے سے پرہیز کرتے ہیں۔ عالمی ادارہ صحت کے اعداد و شمار کے مطابق انفلوینزا یا فلو کی وجہ سے ہر سال تقریباً 50 لاکھ کے قریب انسان شدید بیمار ہوتے ہیں، جن میں سے 5 لاکھ تک جان کی بازی ہار جاتے ہیں۔ امریکہ کے سینٹر فار ڈزیز کنٹرول اینڈ پریوینشن سینٹر کے مطابق 2019 سے لے کر 2020 کے فلو کے سیزن میں اب تک 40 ہزار کے درمیان فلو سے جڑی اموات ہوئی ہیں۔
عالمی ادارہ صحت کے مطابق کورونا وائرس کے پھیلاؤ کے پیش نظر دنیا کو ایک ’نامعلوم خطرے‘ کا سامنا ہے جس سے اموات کی تعداد 3000 سے تجاوز کرگئی ہے، ان میں زیادہ تر چینی باشندے شامل ہیں۔ تاہم نئے اعداد و شمار کے مطابق چین کی نسبت دیگر ممالک میں اس وائرس سے متاثرہ افراد میں نو گنا اضافہ ہوا ہے۔ چین کے بعد اس وائرس کے سب سے زیادہ مریض جنوبی کوریا میں ہیں جہاں تصدیق شدہ مریضوں کی تعداد 5000 سے تجاوز کر گئی ہیں لیکن وہاں ابھی تک اس وائرس سے صرف 22 افراد کی اموات کی اطلاع ہے۔
اس کے برعکس ایران میں متاثرہ افراد کی تعداد 2500 کے قریب ہے اور وہاں اموات کی سرکاری تعداد 77 بتائی جا رہی ہے۔ ایران کے بعد کورونا وائرس کے سب سے زیادہ مریض اٹلی میں ہیں جن کی تعداد دو ہزار سے کچھ زیادہ ہے اور اب تک اس وائرس سے وہاں 52 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ اور تو اور، کرونا وائرس امریکہ اور برطانیہ بھی پہنچ چکا ہے اور وہاں بھی کئی جان نگل گیا ہے۔
پاکستان میں ابھی تک کورونا کے پانچ تصدیق شدہ کیسز ہیں جن میں سے متاثر ہونے والے تین کا تعلق گلگت بلتستان سے ہے جب کہ دو کا تعلق کراچی سے بتایا جا رہا ہے۔
برطانیہ میں پاکستانی نژاد ڈاکٹروں کی تنظیم ایسوسی ایشن آف پاکستانی فیزیشنز اینڈ سرجنز آف دی یونائیٹڈ کنگڈم کے سی ای او ڈاکٹر عبدالحفیظ کہتے ہیں کہ ہم فلو اور کورونا کا موازنہ ابھی نہیں کر سکتے کیوںکہ ہمیں فلو کے متعلق تو پتا ہے جبکہ کورونا کے متعلق کچھ نہیں پتا۔ بس اتنا معلوم ہے کہ یہ دونوں ملتے جلتے ہیں۔ ابھی تحقیق ہو رہی ہے لیکن وہ ابتدائی مراحل میں ہے۔ انہوں نے کہا کہ کورونا وائرس جتنی تیزی سے پھیل رہا ہے اتنی تیزی سے اس پر تحقیق نہیں ہو رہی ہے۔
ڈاکٹر حفیظ کا کہنا ہے کہ کسی کی چھینک یا نزلے زکام کو بظاہر دیکھ کر یہ پتا لگانا ابھی ناممکن ہے کہ اسے عام فلو ہے یا کورونا وائرس۔ ان کا کہنا ہے کہ ہم یونیورسل پریکاشن کے اصول کے تحت جب مریضوں کے خون کا نمونہ لیتے ہیں تو یہ مان کر چلتے ہیں کہ سب کو ہی کورونا ہے اور اسی طرح کی احتیاط کرتے ہیں جیسی بتائی گئی ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ ٹیسٹ کے بعد نتیجہ منفی نکلے۔ یہ بڑھ رہا ہے، اس کے متعلق زیادہ پتا نہیں لیکن پھر بھی ہمیں چاہیے کہ خوف میں مبتلا نہ ہوں۔ اگرچہ ابھی اس کی کوئی ویکسین نہیں آئی لیکن اعداد و شمار یہ بھی بتاتے ہیں کہ اس سے ہلاک ہونے والے اکیس اعشاریہ نو فیصد افراد کی عمر اسی سال سے زیادہ ہے جب کہ نو سال سے کم عمر ایک بچے کی بھی موت کی تصدیق نہیں ہوئی ہے۔ سو اس سے زیادہ خطرہ ان کو ہے جو پہلے سے کسی بیماری میں مبتلا ہیں یا ان کی عمر زیادہ ہے۔
دراصل فلو اور کورونا سے ہونے والی بیماریاں دونوں ہی سانس کی بیماریاں ہیں۔ اگرچہ یہ دونوں بظاہر ایک ہی طرح کی دکھائی دیتی ہیں لیکن دونوں بیماریاں مختلف قسم کے وائرس سے لگتی ہیں۔ دونوں ہی میں بخار چڑھتا ہے، کھانسی آتی ہے، جسم درد کرتا ہے، تھکاوٹ کا احساس رہتا ہے اور کبھی کبھار متلی یا دست ہوتا ہے۔ یہ دونوں کچھ عرصے کے لیے بھی ہو سکتی ہیں اور ایک لمبے عرصے کےلیے بھی۔ کئی کیسز میں بیمار افراد کی موت بھی واقع ہو سکتی ہے۔ ان دونوں بیماریوں سے نمونیہ بھی ہو سکتا ہے جو کہ کئی کیسز میں خطرناک ہوسکتا ہے۔ دونوں ہی ایک شخص سے دوسرے شخص کو ہوا میں قطروں کے ذریعے لگتے ہیں یعنی ایک متاثرہ شخص سے یہ دوسرے شخص کو اس کی کھانسی، چھینک یا بہت قریب سے باتیں کرتے ہوئے بھی لگ سکتے ہیں۔ یہ مماثلت سب سے زیادہ ذہن میں رکھنے والی ہے اور اس سے زیادہ احتیاط کی ضرورت ہے۔
کورونا کے مریض سے سب سے زیادہ خطرہ اس کے گھر والوں کو ہوتا ہے۔ کیوںکہ یہ وائرس آنکھ، ناک اور منہ سے جسم میں داخل ہو جاتا ہے اس لیے سب سے زیادہ احتیاط مریض کے قریب رہنے والوں کو کرنی چاہیے۔ یہ کمرے کے دروازے کے ہینڈل سے بھی لگ سکتا ہے اور وہی برتن استعمال کرنے یا پکڑنے سے بھی جو مریض استعمال کر رہا ہے۔ اس سے احتیاط کی کنجی صرف یہ ہے کہ مریض کے بہت قریب نہ جائیں لیکن ایسا نہیں کہ اسے بالکل چھوڑ ہی دیں۔ بس احتیاط کریں۔
ابھی تک سامنے آنے والی تحقیق کے مطابق کورونا وائرس کی وجہ صرف ایک ہی وائرس ہے جب کہ فلو کی مختلف قسمیں اور وائرس ہیں۔ اگرچہ یہ دونوں وائرس ہوا میں قطروں اور چھونے سے لگتے ہیں لیکن ابھی تک سامنے آنے والی تحقیق سے یہ بھی پتا چلا ہے کہ کورونا وائرس ایک شخص سے دوسرے کو اس وقت بھی لگ سکتا ہے جب کہ وہ وہاں موجود نہ ہو۔ یعنی کہ متاثرہ شخص کے جراثیم ہوا میں موجود قطروں میں زندہ رہتے ہیں اور جب وہ وہاں سے چلا بھی جاتا ہے تو وہ وہاں موجود یا آنے والے کسی دوسرے شخص کو لگ سکتے ہیں۔
اس بات کو بھی مدِ نظر رکھنا چاہیے کہ فلو کے متعلق سائنسدان کئی دہائیوں سے تحقیق کر رہے ہیں۔ اگرچہ اس سے اب بھی دنیا بھر میں بہت سی اموات ہوتی ہیں پر ہم اس کے متعلق بہت کچھ جانتے ہیں لیکن کورونا وائرس کے متعلق ایسا نہیں ہے۔ یہ نیا ہے، ہم اس کے متعلق زیادہ نہیں جانتے، اس سے نمٹنے کےلیے ہماری پاس ابھی مناسب ادویات نہیں اور اسی لیے یہ زیادہ خطرناک ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button