لاہور میں انڈرورلڈ کی دشمنی کی داستان کیسے شروع ہوئی؟

اندرون لاہور کے سرکلر روڈ کے باسی ’ٹرکاں والا‘ خاندان سے تعلق رکھنے والے امیر بالاج ٹیپو بھی والد کی طرح خاندانی دشمنی کی بھینٹ چڑھ گئے، عین اس موقع پر جب وہ شادی کی تقریب سے فارغ ہو کر واپس جا رہے تھے کہ حملہ آور نے سیلفی کا بہانہ کر کے قریب پہنچتے ہی فائرنگ کر دی، چار گولیوں نے بالاج کی زندگی کا چراغ گل کر دیا جبکہ حملہ آوار موقع پر مارا گیا۔جس قسم کی زندگی نے ان کو چُنا اس کی بہت سی پیچیدگیوں میں سے ایک یہ بھی تھی کہ وہ زیادہ کہیں آ جا نہیں سکتے تھے، اندرون لاہور کے سرکلر روڈ کے باسی ’ٹرکاں والا‘ خاندان سے تعلق رکھنے والے امیر بالاج ٹیپو کو اگر اپنے ’’ڈیرے‘‘ کی چار دیواری سے نکل کر کہیں بھی باہر آنا جانا ہوتا تھا تو مسلح محافظوں کا ایک قافلہ گاڑیوں میں ان کے آگے اور پیچھے ہوتا تھا۔زندگی کا یہ طرز انھوں نے اپنے والد کے قتل کے بعد اس وقت اپنایا جب صرف 17 یا 18 برس کی عمر میں انھیں ’’خاندانی دشمنی‘‘ کا بھار اٹھانا پڑا۔ 2010 میں ان کے والد عارف امیر عرف ٹیپو ٹرکاں والا کو دبئی سے واپسی پر لاہور ایئر پورٹ پر گولیاں مار کر قتل کر دیا گیا تھا۔لاہور سے تعلق رکھنے والے صحافی اور تجزیہ نگار ماجد نظامی بتاتے ہیں کہ ٹرکاں والا کے نام سے مشہور خاندان کا لاہور کی شاہ عالم یا شالمی مارکیٹ میں بھی اس خاندان کا بڑا اثر و رسوخ ہے۔ یہیں قریب ہی بِلا ٹرکاں والا کا ڈیرہ بھی ہوا کرتا تھا جو نسلوں میں آگے چلتا چلتا آج بھی موجود ہے، اس واقعے میں بِلا ٹرکاں والا کے جوان بیٹے ٹیپو ٹرکاں والا کا نام آ رہا تھا۔ اس قتل اور اس سے جڑے بعد کے واقعات نے ٹرکاں والا خاندان کے لیے زندگی کا رخ ہمیشہ کے لیے بدل دیا لیکن اس کے چند حقائق کے حوالے سے مخلتف آرا پائی جاتی ہیں۔صحافی ماجد نظامی کے مطابق یہ ایک قتل کا واقعہ تھا اور اس کے مقدمے میں بِلا ٹرکاں والا کے بیٹے عارف امیر عرف ٹیپو ٹرکاں والا کا نام آ رہا تھا۔ بلا ٹرکاں والا کے دو بااعتماد ملازم تھے جن کا نام حنیف بابا اور شفیق بابا بتائے جاتے ہیں۔بِلا ٹرکاں والا نے قتل کے مقدمے میں سے اپنے بیٹے کا نام نکلوا کر حنیف کا نام دے دیا ،اس وعدے پر کہ وہ بعد میں اس کو رہا کروا لیں گے۔ لیکن حنیف سزا پا کر جیل چلا گیا۔جنگ اور جیو گروپ سے منسلک لاہور کے صحافی میاں عابد کہتے ہیں کہ یہ بنیادی طور پر ایک خاتون سے زیادتی کا واقعہ تھا جس میں بِلا ٹرکاں والا کے بیٹے کا نام آ رہا تھا اور مقدمے میں سے اس کو نکلوا کر حنیف کا نام ڈلوایا گیا۔ اس کو سات سال کی سزا ہوئی اور وہ جیل چلا گیا۔ وہ کہتے ہیں کہ ’وہ جب سزا پوری کر کے جیل سے واپس آیا تو اس نے اور شفیق بابا نے مل کر بِلا ٹرکاں والا کو مارنے کا منصوبہ بنایا۔ انھیں اس بات کا غصہ تھا کہ بلا نے اپنے بیٹے کو بچانے کے لیے ان کو پھنسا دیا اور رہا بھی نہیں کروایا۔ٹرکاں والا خاندان کے لیے اندرون لاہور کے مبینہ ’انڈر ورلڈ‘ کے چند بڑے کرداروں سے دشمنی کی بنیاد بِلا ٹرکاں والا کے اسی قتل کے بعد پڑی۔ بلا کے قاتلوں حنیف اور شفیق نے بِلا کو قتل کرنے کے بعد لاہور کے علاقے گوالمنڈی کے ’کاروباری‘ طیفی بٹ اور گوگی بٹ کے پاس جا کر پناہ لے لی۔صحافی ماجد نظامی کے مطابق کئی قاتلانہ حملوں میں بچ جانے کے بعد ایک مرتبہ 2003 میں ٹیپو ٹرکاں والا پر بڑا حملہ لاہور کچہری کے علاقے میں ہوا۔ اس حملے میں ان کے پانچ محافظ مارے گئے۔ وہ خود شدید زخمی ہو گئے اور انھیں ہسپتال منتقل کیا گیا۔ ماجد نظامی کہتے ہیں کہ اس واقعے کا الزام بھی ٹیپو ٹرکاں والا نے طیفی اور گوگی بٹ پر عائد کیا۔وہ کہتے ہیں ’اس واقعے کے بعد ٹیپو نے اپنے خاندان کو دبئی منتقل کر دیا اور خود بھی کچھ عرصے کے لیے ملک سے باہر چلے گئے۔ اسی طرح ایک مرتبہ جب وہ دبئی سے لاہور واپس پہنچے تو ایئرپورٹ کے باہر ایک مسلح شخص نے ان پر فائرنگ کر دی انھیں ہسپتال منتقل کیا گیا لیکن ان کی موت ہو گئی۔ ان کی موت کا سن کر ان کا خاندان بھی دبئی سے واپس لاہور پہنچ گیا۔ ان میں ان کے سب سے بڑے بیٹے امیر بالاج ٹیپو، ان کے دو چھوٹے بھائی اور ایک بہن شامل تھیں۔لاہور سے تعلق رکھنے والے صحافی فرخ شہباز وڑائچ نے 2020 میں امیر بالاج ٹیپو کا ان کے ڈیرے پر انٹرویو کیا تھا۔ بی بی سی سے بات کرتے ہوئے انھوں نے بتایا کہ بالاج نے مجھے ایک مرتبہ بتایا تھا کہ وہ تمام دشمنیاں ختم کرنا چاہتے ہیں وہ یہ آگے اپنے بچوں کو منتقل نہیں کرنا چاہتے تھے۔ ماجد نظامی سمجھتے ہیں کہ ’بٹ گینگ‘ کو یہ خطرہ تھا کہ بالاج ٹیپو ان کو نقصان پہنچا سکتا ہے وہ یہ نہیں مان سکتے تھے کہ بالاج ان کے ساتھ مخلصانہ طور پر دشمنی ختم کر سکتا ہے۔بالاج کے قتل کے بعد ان دونوں گینگز کے درمیان دشمنی کو مزید ہوا ملے گی اور مزید لوگ اس میں شامل ہو سکتے ہیں تاہم صحافی میاں عابد کہتے ہیں کہ ان کے خیال میں ٹیپو ٹرکاں والا کے خاندان کیلئے اس دشمنی کو آگے بڑھانا اب مشکل ہو جائے گا، بالاج کے چھوٹے بھائیوں میں سے ایک وکیل بن چکے ہیں جبکہ دوسرے ابھی تعلیم حاصل کر رہے ہیں، ان کیلئے اس قسم کے معاملات کو چلانا مشکل ہوگا۔

Related Articles

Back to top button