سپریم کورٹ کو دھمکی آمیز خط کی اصلیت بتا دی گئی تھی

باخبر ذرائع نے انکشاف کیا ہے کہ سپریم کورٹ آف پاکستان کی جانب سے سپیکر قومی اسمبلی کی رولنگ کو مسترد کرتے ہوئے ان کے اپوزیشن پر عائد کردہ بیرونی سازش کے الزام کو جان بوجھ کر زیر بحث نہیں لایا گیا کیونکہ اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے پس پردہ اس بات کی تصدیق کی جا چکی تھی کہ تحریک عدم اعتماد میں کسی سازش کے ثبوت نہیں ملے۔

سپریم کورٹ میں سپیکر کی رولنگ کے خلاف سوموٹو کیس کی سماعت کے دوران حکومت کی جانب سے بھرپور کوشش کی گئی کہ عدالت کو مبینہ دھمکی آمیز خط کے معاملے میں الجھایا جائے لیکن جج حضرات نے واضح کردیا کہ وہ سازشی نظریات میں الجھنے کی بجائے سپیکر کی رولنگ پر فوکس کریں گے۔

یاد رہے کہ 3 اپریل کو قومی اسمبلی کے اجلاس میں ڈپٹی سپیکر نے اپوزیشن کی تحریک عدم اعتماد کرتے ہوئے کہا تھا کہ آئین کے آرٹیکل 5 کے تحت کسی بھی غٖیر ملکی طاقت کے کہنے پر حکومت تبدیل نہیں کی جا سکتی لہذا اپوزیشن کی تحریک عدم اعتماد کو آئین سے انحراف قرار دیتے ہوئے مسترد کیا جاتا ہے۔

دوسری جانب سپریم کورٹ کے جج حضرات نے عدالتی کارروائی کے دوران بار بار حکومتی وکلاء سے یہ سوال کیا کہ ڈپٹی سپیکر قومی اسمبلی قاسم سوری نے کن شواہد کی بنیاد پر تحریک عدم اعتماد کی قرارداد کو غیر ملکی سازش کا حصہ قرار دے کر مسترد کیا تھا۔

حکومتی وکلاء کے پاس اس سوال کا کوئی ٹھوس جواب موجود نہیں تھا اور وہ آئیں بائیں شائیں کرتے رہے۔ اس دوران جج حضرات نے حکومتی وکلاء پر یہ بھی واضح کردیا کہ ڈپٹی سپیکر قاسم سوری نے اپوزیشن کی تحریک عدم اعتماد کو مسترد کرنے کی جو رولنگ دی وہ پہلے سے لکھی ہوئی تھی اور اس کے نیچے اسپیکر اسد قیصر کا نام تھا جو سوری روانی میں پڑھ بھی گئے، لہذا صاف ظاہر ہے کہ یہ منصوبہ بد نیتی پر مبنی تھا اور اس کا بنیادی مقصد وزیر اعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ رکوانا تھا۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ جج حضرات مبینہ دھمکی آمیز خط اور بیرونی سازش کے چکر میں اس لیے نہیں الجھے کہ انہیں درپردہ اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے اس حقیقت سے آگاہ کر دیا گیا تھا کہ یہ وزیراعظم کا ایک سیاسی سٹنٹ ہے جس کی کوئی حقیقت نہیں۔ میڈیا کی چیدہ چیدہ شخصیات کی طرح عدلیہ کے بڑوں کو بھی سیکیورٹی ایجنسیوں کی تفتیش کے نتائج سے آگاہ کرتے ہوئے بتایا گیا تھا کہ وزیر اعظم کے الزامات کی صداقت بارے قابل اعتماد شواہد نہیں ملے۔

واضح رہے اس سے قبل عمران خان نے اپوزیشن کی تحریک عدم اعتماد کو غیرملکی سازش قرار دیکر اس حوالے سے ایک دھمکی آمیز خط بھی بطور ثبوت پیش کیا لیکن بعد میں یہ راز کھلا کہ وہ تو واشنگٹن میں پاکستان کے سابق سفیر اسد مجید خان نے لکھا تھا۔ اس سے پہلے عمران نے الزام لگایا تھا کہ ان کی حکومت کے خلاف سازش میں امریکا کا ہاتھ ہے اور اس حوالے سے قومی سلامتی کمیٹی اور اسکے اجلاس میں شریک ہونے والے آرمی چیف  اور انٹیلی جنس اس سازش کی تصدیق کر چکے ہیں۔ تاہم عسکری ذرائع نے عمران خان کے اس دعوے کی بھی نفی کی ہے۔

لیکن قومی اسمبلی کے ڈپٹی اسپیکر نے اسی سازش کو جواز بنا کر حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد مسترد کر دی تھی جس کے بعد سپریم کورٹ نے معاملے کا ازخود نوٹس لیا تھا اور قاسم سوری کی رولنگ کو غیر آئینی قرار دے کر اپوزیشن کی عدم اعتماد کی تحریک کو بحال کردیا اور ہفتے کے روز اس پر ووٹنگ کروانے کا حکم دے دیا۔
دوسری جانب امریکا نے کپتان حکومت الٹانے کی سازش میں ملوث ہونے کے الزام کی تردید کی ہے۔

یہ اطلاعات بھی ہیں کہ بیرونی سازش کے حوالے سے جس خط کا دعویٰ کیا گیا تھا اس میں تبدیلیاں کی گئیں اور اسے مرضی کا رنگ دیا گیا۔وزارت خارجہ کے ذرائع کے حوالے سے حامد میر نے بتایا کہ جس خط کو بین الاقوامی سازش کی بنیاد بنایا گیا اور قومی اسمبلی تحلیل کی گئی وہ صلی نہیں، بلکہ سفارت کار کے بھیجے گئے متن کو وزارت خارجہ میں دوبارہ تحریر کیا گیا، اور کچھ الفاظ شامل کیے گے۔ انکا کہنا تھا کہ یہ وہ متن نہیں جو پاکستانی سفارت کار  نے بھیجا تھا، انکا کہنا تھا کہ اب اگر اس معاملے کی تحقیقات ہوں گی تو نئے پہلو سامنے آئیں گے۔

یاد رہے کہ سپریم کورٹ میں سپیکر کی رولنگ کے خلاف کیس کی سماعت کے دوران اپوزیشن اتحاد سے تعلق رکھنے والے آصف زرداری، بلاول بھٹو، شہباز شریف اور مولانا فضل الرحمان نے فوج اور خفیہ اداروں سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ اس حوالے سے اپنی پوزیشن واضح کریں۔

اپوزیشن رہنماؤں نے عسکری اداروں سے مطالبہ کیا تھا کہ اگر وہ بھی عمران کے الزامات سے متفق ہیں یا اُن کے پاس شواہد ہیں تو وہ سامنے لائیں۔ ان الزامات پر پاکستانی فوج کی جانب سے کوئی باضابطہ ردعمل سامنے نہیں آیا لیکن عسکری ذرائع کے مطابق عمران حکومت کے خلاف کسی بیرونی سازش کے شواہد نہیں ملے تھے۔

اسلام آباد ہائیکورٹ نے پیکا آرڈیننس کالعدم قرار دے دیا

سینئر صحافی ندیم ملک کے مطابق ایک عسکری اہلکار سے پوچھے گئے سوال کے تحریری جواب میں کہا گیا تھا کہ ذمہ داران نے قومی سلامتی کمیٹی کو واضح طور پر بتایا کہ انہیں کسی بیرونی سازش، دھمکی کے ثبوت نہیں ملے اور نہ ہی اندرونی معاملات میں مداخلت، روابط اور پاکستان کے خلاف سازش کے شواہد سامنے آئے ہیں۔ چنانچہ اسی بنیاد پر سپریم کورٹ آف پاکستان نے بھی مبینہ دھمکی آمیز خط کے معاملے میں الجھنے سے پرہیز کیا۔

Supreme Court was told authenticity of threatening letter video

Related Articles

Back to top button