عمران خان! کیا یہ پیسہ تمہارے باپ کا ہے؟

اپوزیشن میں رہتے ہوئے ماضی کی برسرِ اقتدار جماعتوں پر اپنی ذاتی تشہیر کے لیے عوام کے ٹیکسوں کے پیسے استعمال کرنے والوں پر تنقید کرتے ہوئے عمران خان اکثر پوچھا کرتے تھے کہ حکمرانوں کیا یہ پیسہ تمہارے باپ کا ہے؟ لیکن وزیراعظم بننے کے بعد وہی عمران خان آجکل نہ صرف اپنی ذاتی تشہیر کے لیے پاکستان ٹیلی ویژن کا بے دریغ استعمال کر رہے ہیں بلکہ ملک کے تمام بڑے اخبارات میں عوام کے پیسوں سے چھاپے گے اشتہاروں میں بھی اپنی تصاویر نمایا انداز میں شائع کروارہے ہیں۔ لہذا وزیراعظم سوشل میڈیا پر شدید تنقید کی زد میں ہیں اور صارفین عمران خان سے انہی کا سوال دہراتے ہوئے پوچھ رہے ہیں کہ کیا یہ پیسہ تمہارے باپ کا ہے؟
وزیراعظم عمران خان کی اس منافقت پر سوشل میڈیا صارفین مختلف انداز میں تبصرہ کر رہے ہیں۔ کسی کا کہنا یے کہ ’ہاتھی کے دانت کھانے کے اور، اور دکھانے کے اور۔‘ کوئی پوچھتا ہے کہ یہ ہے آپ کی تبدیلی اور نیا پاکستان جس میں نہ تو کچھ تبدیل ہوا ہے اور نہ ہی کچھ نیا ہے؟ وہی پرانی پالیسیاں اور پرانی حرکتیں۔ کئی صارفین کا کہنا ہے کہ ماضی کی حکومتیں اپنی تشہیر پر پیسے خرچتی تھیں تو عوام کی فلاح پر بھی لگاتی تھیں لیکن ناکام کپتان کی ناکام حکومت تو دنیا کے چھوٹے سے چھوٹے ممالک کے بھی برعکس اپنے عوام کو فری کرونا ویکسین تک پہنچانے میں ناکام ہے۔
یعنی مختصر یہ کہ عمران خان اپوزیشن میں رہتے ہوئے برسرِ اقتدار پارٹیوں پر جننحرکتوں کی بنا پر تنقید کرتے رہے وہ سب حرکتیں وہ آج خود بڑی ڈھٹائی سے کر رہے ہیں اور ان کا تبدیلی لانے اور نیا پاکستان بنانے کا نعرہ ایک ڈھکوسلہ ثابت ہو چکا ہے۔
وزیرِ اعظم بننے سے قبل عمران خان سرکاری ٹیلی ویژن پی ٹی وی کو ’غیر سیاسی‘ بنانے کا دعویٰ کرتے تھے۔ اب صورتحال کچھ یوں ہے کہ حکمران جماعت تحریک انصاف آجکل اپنا 25واں یومِ تاسیس منا رہی ہے اور اس حوالے سے سرکاری و ریاستی ذرائع ابلاغ پر ہر جانب وزیرِ اعظم عمران خان کی تصاویر اور ان کی جماعت کی 25 سالہ جدوجہد اور کامیابیوں کا چرچا جارہ ہے۔ یاد رہے 25 اپریل 1996 کو موجودہ وزیرِ اعظم اور سابقہ کرکٹر عمران خان نے اس جماعت کی بنیاد رکھی تھی اور وہی اس کے پہلے چیئرمین منتخب ہوئے تھے۔ 25 اپریل کو قومی نشریاتی چینل پاکستان ٹیلی ویژن نے اس حوالے سے سات ٹویٹس پر مبنی ایک تھریڈ پوسٹ کیا ہے جس کا آغاز چینی فلاسفر لاؤ ژو کے ایک قول سے کیا گیا ہے ’ہزاروں میل کے سفر کا آغاز ایک قدم سے ہوتا ہے۔۔ اور آج سے 25 برس پہلے عمران خان نے پاکستان تحریک انصاف کی بنیاد رکھی اور رکاوٹوں، مشکلات اور چیلنجوں پر قابو پاتے ہوئے سنہ 2018 میں وزیر اعظم پاکستان کا عہدہ سنبھالا۔‘اس تھریڈ میں وزیرِ اعظم عمران کی بطور کرکٹر کامیابیاں، شوکت خانم ہسپتال کا قیام اور ان کے سیاسی سفر کا ذکر شامل ہے۔ مگر اس معاملے میں محض تحریک انصاف کی مثال ناکافی ہوگی۔
اسی طرح ملک بھر کے اخبارات میں آج کل بہتر ایسے اشتہارات شائع ہو رہے ہیں جن میں وزیر اعظم عمران خان کی تصاویر پنجاب کے وزیر اعلی عثمان بزدار کے ساتھ شائع کی جا رہی ہیں اور ان اشتہارات کی ادائیگی وزارت اطلاعات و نشریات کے کھاتے سے عوام کے ٹیکسوں سے اکٹھی کی گئی رقم سے کی جا رہی ہے۔ لیکن ایسا پہلی مرتبہ نہیں ہوا کہ کسی برسرِ اقتدار جماعت نے اپنی تشہیر کے لیے ریاستی وسائل یا ذرائع ابلاغ کا سہارا لیا ہو۔ مسلم لیگ نون اور پیپلز پارٹی سمیت پاکستان میں ماضی کی حکمراں جماعتیں بھی کسی نہ کسی بہانے کبھی آٹے کے تھیلوں اور کبھی لیب ٹاپ پروجیکٹ کے ذریعے تشہیری مقاصد کے لیے اپنی تصاویر سرکاری منصوبوں پر استعمال کرتی آئی ہیں۔ تاہم تحریکِ انصاف پر تنقید کی بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ جب یہ جماعت اپوزیشن میں تھی، اس وقت سرکاری وسائل کو اپنی سیاسی جماعت کی تشہیر کے لیے استعمال کرنے پر دیگر جماعتوں کو خوب آڑے ہاتھوں لیتی تھی۔ عمران خان تو تنقید کرتے ہوئے بات کا آغاز ہی یہاں سے کرتے تھے کیا یہ پیسہ تمہارے باپ کا ہے جو اشتہاروں میں اپنی تصویروں پر خرچ کر رہے ہو۔ اور شاید اسی لیے آج عمران اور انکی حکومت کو سوشل میڈیا پر سخت تنقید کا سامنا ہے اور پاکستانی عوام انھیں ماضی میں کیے گئے وعدے یاد دلا رہے ہیں۔
ایسے میں کئی صارفین یہ کہتے نظر آ رہے ہیں کہ ’کیا پاکستان کے قومی نشریاتی ادارے کو حکمراں سیاسی جماعت کے لیے اس طرح کی مہم چلانی چاہیے؟ پی ٹی وی عوام کے پیسوں پر چلتا ہے، پی ٹی آئی کے پیسوں پر نہیں چلتی۔‘کئی افراد یہ جاننا چاہتے ہیں کہ کیا حقیقتاً قومی نشریاتی ادارہ ’کسی سیاسی جماعت کو فروغ‘ دینے کے لیے استعمال ہوسکتا ہے؟ جنید نامی صارف نے لکھا ’پی ٹی وی کو تو غیر جانبدار ہونا چاہیے۔ یہ شرم کا مقام ہے۔‘
جبکہ نعمان وڑائچ اپنے ٹویٹ کے ذریعے پوچھتے ہیں کہ ’کیا عمران خان کو ذاتی تشہیر کا اتنا شوق ہے کہ سرکاری چینل جو عوام کے پیسوں سے چلتا ہے، اس پر اپنی اور اپنی پارٹی کی تشہیر کی جارہی ہے؟‘
ایک اور صارف سعود نے لکھا ’مسلم لیگ ن جب اقتدار میں آئے تو اس ایئر ٹائم کا بل عمران خان کو ضرور بھجوائے اور ساتھ نیب ریفرنس بھی داخل کرے۔‘
دوسری جانب تحریکِ انصاف کے 25ویں یومِ تاسیس پر سوشل میڈیا پر مبارکبادوں کا ایک ناختم ہونے والا سلسلہ جاری ہے اور پارٹی کارکنان کے علاوہ اس جماعت کے مداحوں کی بڑی تعداد وزیرِ عمران خان کے طویل سیاسی سفر اور ان کی انتھک جدوجہد پر انھیں خراجِ تحسین پیش کررہے ہیں۔ تحریکِ انصاف کے سینیٹر شہزاد وسیم نے لکھا ’25برس قبل چیئرمین عمران خان نے تحریک انصاف کی بنیاد رکھی اور ایک طویل و انتھک جدوجہد کے بعد بلآخر دو پارٹیوں کے نظام کو توڑا اور برسراقتدار آئے۔ اب وزیراعظم عمران خان کی زیر قیادت پاکستان قانون کی حکمرانی، کرپشن کے خاتمہ، معیشت کی مضبوطی، ترقی و خوشحالی کی منزل کی جانب گامزن ہے۔
سرفراز نے لکھا ’مجھے فخر ہے کہ میں نے عمران خان کو اپنا قائد مانا اور پھر اپنی آج تک کی زندگی عمران خان کے نظریے پہ گزاری۔ میں عمران خان کی تحریک کا ایک مجاہد ہوں۔ انشاءاللہ اپنی زندگی کی آخری سانس تک عمران خان کے نظریے پر کھڑا رہوں گا۔‘ دودری جانب اس حوالے سے صحافی سید طلعت حسین کا کہنا ہے کہ ’جب پچھلی حکومتیں کسی ترقیاتی منصوبے پر اپنا نام لکھتیں یا کسی آٹے کے تھیلے پر تصاویر چھاپتیں تھیں تو تحریکِ انصاف ان کی خوب دھلائی کرتی اور کہتی کہ یہ مغلیہ بادشاہ ہیں جو ریاست اور عوام کے وسائل کو اپنی جاگیر سمجھتے ہیں لیکن اب وہی کام بڑے پیمانے پر ہوتا نظر آ رہا ہے۔‘ ان کا کہنا تھا کہ ’تحریکِ انصاف پر تنقید کی دوسری بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ یہ جماعت ماضی کی حکومتوں کو اسی بنا پر موردِ الزام ٹھہراتی آئی ہے اور دوسری جماعتوں پر اعتراض کرنے، ان کا احتساب کرنے اور معیار مقرر کرنے والی جماعت اگر خود اس معیار کی دھجیاں اڑائے تو ان کے خلاف تو پھر دہرا مقدمہ بنتا ہے۔‘
طلعت حسین کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی کی 25 سالہ جدوجہد سے ’ریاست اور عوام کا اس سے کوئی لینا دینا نہیں ہے، اور ایسی جدوجہد یا کامیابی کو عوام کے پیسوں سے فنڈ کرنا بہت ہی معیوب بات ہے۔‘انھوں نے کورونا وائرس کے باعث پاکستان میں موجودہ حالات کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا ایسے موقع پر حالات کو بھی مدِ نظر رکھنا چاہیے، اس وقت پاکستان میں کورونا کی وبا نے لوگوں کی جانوں کو گرفت میں لیا ہوا ہے اور اگر ویکسینشن کے اعداد و شمار پر نظر ڈالیں تو اب تک ہم نے صرف 0.7 فیصد آبادی کو ویکسین لگائی ہے جبکہ عراق نے اپنی آبادی کے 0.8 فیصد کو ویکسین لگا دی ہے۔۔۔ اور ہم اس کی توجیہ یہ پیش کرتے آئے ہیں کہ ہمارے پاس پیسے نہیں ہیں۔ طلعت حسین کا کہنا تھا کہ ’ایک ایسی حکومت جو ہر جگہ پر پیسے نہ ہونے کا رونا روتی ہے اور اس بنا پر شہریوں کی جانوں سے متعلق معاملات کو مؤخر کرتی ہے، ایسی حکومت کی جانب سے اپنی ذاتی اور جھوٹی تشہیر عوام کے ٹیکسوں کے پسے سے کرنا اور بھی بری بات ہے۔‘
تاہم اس حوالے سے تحریکِ انصاف کے سینٹیر فیصل جاوید جو سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے اطلاعات و نشریات کے چیئرمین بھی ہیں، کا کہنا تھا کہ ’پہلے جو حال تھا وہ سب کو پتا ہے ، ہم نے برسرِ اقتدار آ کر پی ٹی وی کو غیر جانب دار بنایا ہے۔‘ان کا کہنا تھا کہ ’پی ٹی وی ریاست کی ترجمانی کرتا ہے۔ پی ٹی آئی کی حکومت ہے اور پی ٹی آئی ریاست کا حصہ ہے اور اگر پی ٹی وی تشہیری مہم چلا رہا ہے تو اس میں کوئی برائی نہیں، یہ بالکل مناسب ہے۔‘فیصل جاوید نے دعویٰ کیا کہ ’ماضی کی حکومتوں میں ہمیں ریاستی میڈیا پر کوئی نمائندگی نہیں ملتی تھی، عمران خان کی پارلیمنٹ میں تقریر بھی بین تھی اور اگر 1992 کے ورلڈ کپ کی جھلکیاں چلائی جاتیں تو ان میں سے بھی عمران خان کو بیچ میں سے نکال دیتے تھے۔‘انھوں نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ ’تحریکِ انصاف کی حکومت میں پاکستان ٹیلی ویژن پر سب جماعتوں کو برابر کی کوریج مل رہی ہے اور ہم نے باقی کی سیاسی جماعتوں کو بھی ریاستی چینل پی ٹی وی پر سیاسی نمائندگی دی ہے۔‘
فیصل جاوید کا کہنا تھا کہ ’آج سے تین سال پہلے میری کمیٹی میں دیگر سیاسی جماعتوں کو ٹاک شوز، نیوز بلیٹن اور دیگر کوریج میں برابری دینے کا فیصلہ کیا گیا تھا اور پی ٹی وی پر دیگر سیاسی جماعتوں کے قائدین جن میں بینظیر بھٹو، ذوالفقار علی بھٹو، نواز شریف اور ضیا الحق وغیرہ شامل ہیں، ان کے متعلق بھی مواد نشر ہوتا ہے۔‘سینیٹر فیصل جاوید کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کے حکم کے مطابق پیڈ کونٹینٹ یا تشہیری مواد پر جماعت کے لیڈران کی تصویر لگانا منع ہے اور وہ ہم نہیں لگاتے۔ تاہم فیصل جاوید کا یہ موقف ایک سفید جھوٹ ہے چونکہ اس وقت پاکستان بھر کے اردو اور انگریزی اخبارات میں جو اشتہارات شائع ہو رہے ہیں ان میں نمایاں طور پر عمران خان کی تصویر دکھائی دیتی ہے۔
یاد رہے سنہ 2018 میں سپریم کورٹ کے چیف جسٹس افتخار چوہدری نے فیصلہ دیا تھا کہ الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کو حکومت کے سپانسر کردہ اشتہارات میں سیاسی رہنماؤں کی تصاویر لگانے کی اجازت نہیں ہوگی۔ اس سوال کے جواب میں کہ اگر کل کوئی اور جماعت برسرِ اقتدار آ کر اسی طرح سیاسی مقاصد کی تشہیر کے لیے ریاستی میڈیا کا سہارا لے تو ان کا کیا ردِعمل ہو گا؟ فیصل جاوید کا کہنا تھا کہ ’اپنی بھی تشہیر کریں اور ہماری بھی، ہم برا نہیں مانیں گے۔‘ تاہم سوشل میڈیا صارفین فیصل جاوید سے بھی یہ سوال کرتے ہیں کیا یہ پیسہ تمہارے باپ کا ہے جو تمہاری تشہیر پر لگا دیں؟

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button