لندن ہائیکورٹ کا شریف فیملی کے حق میں فیصلہ، حکومت کے لئے دھچکا


سابق وزیر اعظم نواز شریف کا پاسپورٹ منسوخ کروانے اور انہیں لندن سے واپس لانے کی کوششوں میں مصروف کپتان حکومت کو اس وقت ایک بڑا جھٹکا لگا جب لندن ہائی کورٹ نے نہ صرف شریف خاندان کو انکے ایون فیلڈ فلیٹس بارے کلین چٹ دے دی بلکہ حکومت پاکستان پر بھی بھاری جرمانہ عائد کر دیا۔
لندن میں مقیم سینئر صحافی مرتضی علی شاہ کی ایک تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق لندن ہائی کورٹ کے فیصلے کے بعد پاکستان کو نہ صرف ایک برطانوی اثاثہ جات ریکوری کمپنی براڈ شیٹ کو اربوں روپوں کا جرمانہ ادا کرنا پڑ گیا یے بلکہ دنیا بھر کے مالیاتی اداروں کی نظروں میں بھی اس کی ساکھ خراب ہوئی یے۔ یاد رہے کہ براڈ شیٹ کمپنی کے ساتھ قومی احتساب بیورو نے پاکستانی سیاستدانوں کی بیرون ملک خفیہ جائیدادوں کو تلاش کرنے کا معاہدہ کیا تھا۔ تاہم بعد میں نیب کی جانب سے معاہدے کی خلاف ورزی پر براڈ شیلڈ نے لندن ہائی کورٹ میں حکومت پاکستان کے خلاف کیس دائر کر دیا تھا۔ حال ہی میں لندن ہائی کورٹ نے براڈ شیٹ کے دعوی کو درست مانتے ہوئے، حکومت پاکستان کو 29 ملین ڈالر ادا کرنے کا حکم سنایا تھا، جسے حکومت پاکستان نے اب ادا بھی کردیا ہے، جبکہ ابھی براڈ شیٹ مزید 3 ملین ڈالر کا دعویدار ہے۔ اسکے علاوہ ابھی حکومت پاکستان نے کیس ہارنے کے باوجود ایک بڑی رقم اپنے وکلا کو بھی فیس کی مد میں ادا کرنی یے۔
سوال یہ ہے کہ آخر پاکستان پر اتنا بڑا جرمانہ کیوں عائد کیا گیا، اس حوالے سے پتہ چلا ہے کہ یہ سب “ بغض معاویہ” کا نتیجہ ہے، یعنی پاکستان کے تین بڑوں، وزیراعظم پاکستان عمران خان، چئیرمین نیب جسٹس ریٹایرڈ جاوید اقبال اور مشیر احتساب شہزاد اکبر کی نواز شریف کے مبینہ خفیہ اکاؤنٹس ڈھونڈنے کی خواہش قومی خزانے کو 7 ارب روپے سے زائد جرمانے کی صورت میں بھگتنا پڑی۔ معاہدے کے باوجود حکومت پاکستان نے اثاثہ جات ریکوری فرم براڈ شیٹ کو جان بوجھ کر ایک سال تک فیس کی ادائیگی نہیں کی بلکہ انھیں یہ راہ دکھائی کہ وہ رقم کی وصولی کیلئے نواز شریف کے ایون فیلڈ فلیٹس کو بھی اسی کیس سے منسلک کرلیں، کپتان سرکار کا خیال تھا کہ چونکہ ارشد ملک کی احتساب عدالت ان فلیٹس کو ضبط کرنے کا حکم دے چکی ہے اس لئے براڈ شیٹ کیلئے برطانوی عدالت سے ایسا ہی حکم حاصل کرنا آسان ہوگا، اس طرح ایک تیر سے دو شکار ہوجائیں گے۔ نیب کا بھی یہی خیال تھا کہ شریف فیملی کے لندن فلیٹس ان سے چھن جائیں گے اور پاکستان کو رقم بھی ادا نہیں کرنی پڑے گی،۔
مرتضیٰ علی شاہ کی رپورٹ کے مطابق عمران خان کے مشیر برائے احتساب شہزاد اکبر نے براڈ شیٹ کو یہ یقین دھانی کرائی تھی کہ شریفوں کے لندن فلیٹس پر قبضہ کرکے انھیں زیادہ رقم وصول ہوگی اور اس ضمن میں اُسے پاکستان سے جو بھی تعاون درکار ہوگا وہ دیا جائے گا، لیکن جب براڈ شیٹ نے یہ معاملہ کندن عدالت میں پیش کیا تو جج نے تمام حقائق دیکھنے کے بعد فیصلہ کیا کہ شریفوں کے لندن فلیٹس کا اس معاملے سے کوئی تعلق نہیں ہے، عدالت نے اپنے فیصلے میں یہ بھی لکھا کہ شریف فیملی کو اس فیصلے سے جوڑنا سراسر غلط تھا، شریف فیملی کا اس معاملے میں نیب سے بھی کوئی تعلق نہیں اور یہ کہ یہ معاملہ براڈ شیٹ اور حکومت پاکستان کے درمیان تھا۔ یوں قومی احتساب بیورو اور حکومت پاکستان کو اس معاملے میں مکمل ناکامی ہوئی اور قومی خزانے کو 7 ارب کا چونا لگ گیا۔
مرتضیٰ علی شاہ کے مطابق عدالتی حکام کی طرف سے کیس کا فیصلہ کرنے سے دو ہفتہ قبل شریف فیملی کو بتادیا گیا تھا کہ انھیں اس معاملے میں ملوث نہیں کیا جارہا، اس فیصلے سے شریف فیملی کو برطانیہ میں فلیٹس کے حوالے سے کلین چٹ مل گئی اور یہ بات بھی واضح ہوگئی کہ اب یہاں عدالتوں کو بھی اس بات کا یقین ہوگیا ہے کہ نواز شریف کے خلاف کارروائی سیاسی دشمنی کا نتیجہ ہے، لیکن اس تمام سازش کا نتیجہ پاکستان کے ٹیکس ادا کرنے والوں کو بھگتنا پڑا اور جو بدنامی ہوئی اس کے مضمرات مستقبل میں سامنے آئیں گے، لندن ہائی کورٹ کے فیصلے کے فوری بات براڈ شیٹ نے اپنی رقم کی وصولی کیلئے حکومت پاکستان کے لندن میں پاکستان ہائی کمیشن کے بنک اکاؤنٹس منجمد کرا دئیے اور عدالتی حکم کے مطابق اب یہ اکاؤنٹس تب غیر منجمند ہونگے جب براڈ شیٹ عدالت کو اس بات کی تسلی کرائے گا کہ اُسے جرمانے کی تمام رقم وصول ہوچکی ہے، براڈ شیٹ کو حکومت پاکستان سے 22 ملین پاؤنڈ کے علاوہ وکلا کی فیس کی مد میں بھی کئی ملین پاؤنڈ ملے ہیں جبکہ اسے ملنے والی رقم کا مجموعی تخمینہ 40 ملین پاؤنڈ تک جاسکتا ہے، واضح رہے کہ براڈ شیٹ اب مزید 3 ملین ڈالر مانگ رہا ہے اور حکومت پاکستان جب تک یہ رقم ادا نہیں کردیتی اُسے روزانہ کی بنیاد 5 ہزار ڈالر سود کی مد میں ادا کرنا ہونگے، اس تمام معاملے میں جہاں پاکستان کو بڑا مالی خسارہ ہوا وہیں پہلی مرتبہ اس کو سفارتی استثنی کی درخواست بھی مسترد ہوگئی کیونکہ عدالت نے یہ موقف اختیار کیا کہ ہائی کمیشن “ کمرشل ایکٹیویٹی”میں ملوث تھا، اس کے علاوہ معاشی ماہرین کے مطابق مستقبل میں جب پاکستان قرضوں کے حصول کیلئے آئی ایم ایف یا دیگر عالمی مالیاتی اداروں سے رجوع کرے گا تو وہ یہ ضرور دیکھیں گے کہ پاکستان، برطانیہ میں عدالتی حکم کے باوجود بروقت رقم ادا کرنے سے انکاری رہا اور جب عدالتی احکامات کے سبب ہائی کمیشن کے اکاؤنٹس منجمد ہوئے تو پھر اس نے مجبوراً رقم ادا کی۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button