حکومتی نااہلی: انڈیا اور سعودیہ سٹریٹجک پارٹنر بن گئے

عمران خان حکومت کی ناکام خارجہ پالیسی کی وجہ سے پاک امریکہ تعلقات خراب ہونے کے بعد اب برادر اسلامی ملک سعودی عرب کے ساتھ بھی پاکستان کے تعلقات تاریخ کی نچلی سطح پر آ گئے ہیں اور سعودی عرب نے متبادل کے طور پر بھارت کے ساتھ سٹریٹجک شراکت داری قائم کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ یوں اب پاکستان کو معاشی اور دفاعی لحاظ سے نئے چیلنجز کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

خیال رہے کہ پاکستان اور سعودی عرب کے تاریخی برادرانہ تعلقات ہیں۔ ماضی قریب میں سعودی عرب نہ صرف پاکستان کو دل کھول کر مالی امداد دیا کرتا تھا بلکہ ادھار تیل بھی فراہم کرتا تھا۔ ماضی قریب میں سعودی عرب نے سابق آرمی چیف جنرل راحیل شریف کو سعودی عرب میں اسلامی اتحاد افواج کا سربراہ مقرر کیا تھا لیکن دو سال قبل وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کی جانب سے سعودی عرب پر تنقید کے بعد شہزادہ محمد بن سلمان پاکستان سے دور ہو گئے اور اپنا قرض بھی فوری واپس مانگ لیا تھا۔

پاکستانی فوجی قیادت کی کوششوں کے بعد حال ہی میں پاک سعودیہ تعلقات کسی حد تک بحال تو ہو گئے تھے لیکن اس کے باوجود معاملات پہلے والے نہیں رہے۔ اسی وجہ سے سعودی عرب نے پاکستان کو ایک ارب ڈالر کا قرض بھی سخت ترین سود کی شرائط پر دیا اور متبادل کے طور پر انڈیا کے ساتھ تعلقات بڑھانا شروع کر دیئے ہیں۔

خارجہ امور پر گہری نظر رکھنے والے تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ایک وقت تھا جب پاکستان کا سعودی عرب کے ساتھ چولی دامن کا ساتھ ہوتا تھا لیکن اب ایسا محسوس ہوتا ہے کہ سعودیہ پاکستان سے دور اور بھارت کے قریب تر ہوتا جا رہا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ پاک سعودی تعلقات میں خرابی کے ذمہ دار عمران خان ہیں جبکہ بھارت سعودیہ تعلقات میں قربتوں کا کریڈٹ وزیر اعظم نریندر مودی کو جاتا ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ پہلے انڈیا کے سعودی عرب کے ساتھ صرف تجارتی تعلقات تھے کیونکہ انڈیا وہاں سے 18 فیصد خام تیل درآمد کرتا رہا ہے لیکن اب یہ تعلقات درآمد سے زیادہ ہو گئے ہیں۔ حال ہی میں دورہ بھارت کے دوران سعودی عرب کے فوجی کمانڈر لیفٹیننٹ جنرل فہد بن عبداللہ محمد المطیر کو انڈین ساخت کے میزائل، ڈرون، ہیلی کاپٹر، بکتر بند گاڑیاں اور توپ خانہ دکھایا گیا.

جس کے بعد دونوں ممالک میں اسٹریٹجک پارٹنرشپ قائم کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ ماہرین کا خیال ہے کہ مشرق وسطیٰ کی موجودہ صورتحال کے پیش نظر سعودی عرب سٹریٹجک طور پر مزید مضبوط ہونا چاہتا ہے اور وہ بھی امریکا سے دوری کے باوجود۔ ایسے میں انڈیا کے ساتھ بہتر تعلقات بنانے میں ان کے لیے کوئی رکاوٹ نہیں۔ خارجہ اور سٹریٹجِک امور کے ماہرین کا کہنا ہے کہ تعلقات میں یہ تبدیلی کی شروعات سعودی عرب کی جانب سے ہوئی ہے، جہاں کبھی پاکستان کی فوج کی ایک پوری بریگیڈ سعودی عرب میں تعینات ہوا کرتی تھی۔

حکومت جج کیخلاف ریفرنس دائر کرنے سے پیچھے ہٹ گئی

پھر پاک سعودیہ تعلقات میں دراڑ آئی تو ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے بہت سی تبدیلیاں کرنا شروع کیں۔ پاکستان کی بریگیڈ کو ہٹا دیا گیا۔ اب سعودی عرب اپنی فوج کو جدید بنا رہا ہے۔ یہاں تک کہ امریکہ نے وہاں پر تعینات ’پیٹریاٹ میزائلوں‘ کو ہٹا دیا۔ اب سعودی عرب تیل کے بعد کی اپنی معیشت کو مضبوط بنانے کے لیے کام کر رہا ہے۔

ماہرین کا خیال ہے کہ سعودی عرب انڈیا کے ساتھ بھی بہتر سٹریٹجک تعلقات استوار کرنا چاہتا ہے کیونکہ اسے کسی اسلامی ملک پر بھروسہ نہیں۔ ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ سعودی عرب کے امریکہ کے ساتھ تعلقات انتہائی پیچیدہ رہے جبکہ انڈیا کے ساتھ تعلقات ہمیشہ کھلے رہے ہیں۔

واضح رہے کہ حال ہی میں سعودی عرب کے فوجی سربراہ نے انڈیا کا دورہ کیا جسے تاریخی قرار دیا جا رہا ہے کیونکہ کسی سعودی آرمی چیف کا انڈیا کا یہ پہلا دورہ تھا۔ ٹھیک تین سال پہلے جب سعودی عرب کے ولی عہد محمد بن سلمان انڈیا کے پہلے دورے پر آئے تھے تو وزیراعظم نریندر مودی پروٹوکول کو نظرانداز کرتے ہوئے خود ہوائی اڈے پہنچے تھے اور گلے مل کر ان کا پُرتپاک استقبال کیا تھا۔ محمد بن سلمان کا یہ دورہ محض رسمی نہیں تھا بلکہ اس کے ذریعے سٹریٹجک اور سفارتی حلقوں میں کئی پیغامات جا رہے تھے۔ محمد بن سلمان سعودی عرب کے وزیر دفاع بھی ہیں۔

کچھ مہینوں بعد یعنی اکتوبر 2019 میں وزیر اعظم نریندر مودی نے بھی سعودی عرب کا دورہ کیا۔ اس دورے کے دوران انڈیا اور سعودی عرب کے درمیان ایک ’سٹریٹجک کوئوپریشن کونسل‘ بھی قائم کی گئی تھی حالانکہ سعودی عرب اور انڈیا کے تعلقات بنیادی طور پر تیل کے ارد گرد مرکوز تھے لیکن سٹریٹجک امور کے ماہرین کا خیال ہے کہ گزشتہ چند سال میں یہ تعلقات اب تیل کے علاوہ سٹریٹجک تعاون پر آ گئے ہیں۔ دسمبر 2020 میں انڈین فوجی سربراہ جنرل ایم ایم نروانے سعودی عرب پہنچ گئے۔ کسی بھی انڈین فوجی سربراہ کا سعودی عرب کا یہ پہلا دورہ تھا۔

سٹریٹجک امور کے ماہرین سمجھتے ہیں کہ انڈیا کی سب سے کامیاب خارجہ پالیسی خلیجی ممالک یا وسطی ایشیا کے ساتھ ہے۔ کورونا وبا کے باوجود انڈیا اور سعودی عرب کے فوجی افسران ایک دوسرے کے ممالک کے اداروں میں تربیت حاصل کر رہے ہیں۔ یہ بھی ایک اتفاق ہے کہ اس سال انڈیا اور سعودی عرب کے درمیان قائم سفارتی تعلقات کو بھی 75 سال مکمل ہو رہے ہیں۔ اس کے پیش نظر اس سال دونوں ممالک کی افواج مشترکہ مشقیں بھی کریں گی۔ گزشتہ سال دونوں ممالک کی بحری افواج نے مشترکہ مشقیں بھی کی تھیں۔ سٹریٹجک امور کے ماہرین کا کہنا ہے کہ مشرق وسطیٰ کی صورتحال تین چیزوں پر مرکوز ہے اسرائیل، ایران اور امریکہ۔۔

پچھلے تین سال میں انڈیا اور سعودی عرب کے درمیان دفاع کے حوالے سے بہت کچھ ہوا ہے جیسے انٹیلیجنس معلومات اور سائبر سکیورٹی اور انسداد دہشت گردی کی معلومات کا تبادلہ۔ سفارتی حلقوں میں یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ تعلقات میں نئی تبدیلیوں کے باعث جب انڈیا نے جموں و کشمیر سے آرٹیکل 370 ہٹانے کا اعلان کیا تو سعودی عرب انڈیا کے ساتھ کھڑا تھا۔ اس کے علاوہ بھی ایسے کئی معاملے سامنے آئے ہیں جب سعودی عرب نے واضح کیا کہ وہ انڈیا کے اندرونی معاملات میں مداخلت نہیں کرے گا۔

Related Articles

Back to top button