میجر پر تشدد کے واقعے میں شہباز شریف فوج کے ساتھ

معلوم ہوا ہے کہ لاہور میں لیگی رہنماؤں کے گارڈز سے جھگڑے کے دوران تشدد کا نشانہ بننے والے آرمی میجر کا کیس عسکری حکام نے وزیر اعظم شہباز شریف کے سامنے اٹھایا تھا جس کے بعد انہوں نے پنجاب اسمبلی کے اراکین خواجہ سلمان رفیق اور حافظ محمد نعمان کو فوری طور پر گرفتاری دینے کا حکم دیا حالانکہ اس واقعے میں ملوث گارڈز پہلے ہی گرفتار ہو چکے تھے۔ شہباز شریف کی ہدایات کے بعد خواجہ سلمان رفیق اور حافظ نعمان نے گارڈن ٹاون تھانے پہنچ کر گرفتاری دے دی۔

بتایا جاتا ہے کہ 13 اپریل کو لاہور میں مسلم لیگ ن کے رہنما خواجہ سلمان رفیق اور حافظ نعمان کے گارڈز  نے گارڈن ٹاون کے علاقے میں گاڑی اوور ٹیک کرنے اور گالی گلوچ پر جھگڑے کے بعد فوج کے میجر حارث کو زبردستی روک کر تشدد کا نشانہ بنایا تھا جس کی ویڈیوز بھی سوشل میڈیا پر وائرل ہوگئی تھیں۔

ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ ایک سفید رنگ کی لینڈ کروزر نے میجر حارث کی کالے رنگ کی ٹویوٹا گاڑی کو سڑک کے درمیان روک رکھا ہے اور اس پر تشدد کیا جا رہا ہے۔ تاہم سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی کسی بھی ویڈیو میں نہ تو خواجہ سلمان رفیق نظر آتے ہیں اور نہ ہی حافظ نعمان۔ بتایا جاتا ہے کہ ان دونوں نے شہباز شریف کو اس واقعے میں ذاتی طور پر ملوث نہ ہونے کی یقین دہانی کروائی لیکن انہیں حکم دیا گیا کہ وہ گرفتاری دے دیں کیوں کہ ایف آئی آر میں ان کا نام بھی درج ہے۔

یاد رہے کہ 14 اپریل کو لاہور کے کور کمانڈر کی جانب سے یہ معاملہ وزیر اعظم شہباز شریف کے نوٹس میں لائے جانے کے بعد خواجہ سلمان رفیق اور حافظ نعمان نے رضا کارانہ طور گرفتاریاں دے دی تھیں حالانکہ ان کا اصرار تھا کہ وہ اس واقعہ میں ملوث نہیں۔

گرفتاری دینے سے پہلے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے خواجہ سلمان رفیق نے کہا کہ واقعے سے پہلے ہی ان کی کار سرخ بتی کی وجہ سے گارڈز کی گاڑی سے پیچھے رہ گئی تھی اور ان کا اس واقعے سے کوئی تعلق نہیں۔ انہوں نے کہا کہ سیف سٹی کی سی سی ٹی وی فوٹیج اور انکے موبائل فونز کی لوکیشن سے بھی یہ ثابت ہوجائے گا کہ واقعے کے وقت وہ موقع پر موجود نہیں تھے۔

اس سے قبل پولیس نے میجر حارث پر تشدد میں ملوث افراد کی گاڑی ٹریس کر کے لیگی رہنماؤں کے تین ملازمین کو گرفتار کر لیا تھا اور ان کے خلاف مقدمہ بھی درج ہو گیا تھا۔ ملازمین نے بتایا تھا کہ میجر نے انہیں ماں بہن کی گندی گالیاں دی جس کے بعد جھگڑا ہو گیا۔ ان کا کہنا تھا کہ اس واقعے سے خواجہ سعد رفیق یا حافظ نعمان کا کوئی تعلق نہیں، تاہم میجر حارث کا اصرار تھا کہ اس پر تشدد خواجہ سعد رفیق اور حافظ نعمان کے ایما پر کیا گیا اور واقعے کے وقت سلمان رفیق اور حافظ نعمان بھی موقع پر موجود تھے۔

ڈی آئی جی انویسٹی گیشن شہزادہ سلطان کے مطابق 13 اپریل کو فردوس مارکیٹ کے قریب سے گزرتے ہوئے مسلم لیگ ن کے رہنما خواجہ سلمان رفیق اور حافظ نعمان کے گارڈز کی گاڑی کے میجر حارث کی گاڑی کو اورر ٹیک کرنے پر جھگڑا شروع ہوا اور دونوں طرف سے ایکدوسرے کا کا راستہ روکنے کی کوشش ہوتی رہی۔

ڈی آئی جی کے مطابق جب دونوں گاڑیاں کلمہ چوک اشارے پر پہنچیں تو پچھلی گاڑی میں موجود لیگی رہنماؤں کے ملازمین نے تلخ کلامی ہونے پر کار سے اتر کر میجر حارث کو شدید تشدد کا نشانہ بنایا، جس سے ان کی حالت خراب ہوگئی، بود ازاں میجر کو ہسپتال لے جایا گیا جہاں اسے طبی امداد دی گئی۔ میجر حارث کے والد چوہدری راشد محمود کی جانب سے درج کروائی گئی ایف آئی آر میں موقف اپنایا گیا ہے کہ ’ان کے بیٹے میجر حارث افطاری کے لیے بدھ کی شام چار ساڑھے چار بجے اپنے سسرال اقبال ٹاؤن جا رہے تھے کہ فردوس مارکیٹ انڈر پاس کے قریب ڈبل کیبن لینڈ کروزر نے حارث کی گاڑی کو ہٹ کیا جس میں سات افراد سوار تھے۔ وہ میرے بیٹے سے بدتمیزی کرنے لگے۔

ایف آئی آر کے مطابق: ’ان نامعلوم افراد نے طیش میں آ کر حارث کو تشدد کا نشانہ بنایا۔ حارث نے وہاں سے نکلنے کی کوشش کی تو مسعود ہسپتال کے قریب رش کے باعث گاڑی پھنس گئی جس کے بعد ان لوگوں نے دوبارہ حارث پر آہنی راڈ سے تشدد کیا اور جان سے مارنے کی کوشش کی تاہم وہاں موجود لوگوں نے چھڑوایا۔

ڈی آئی جی لاہور شہزادہ سلطان کا کہنا ہے کہ کیس کی سو فیصد میرٹ پر تفتیش ہوگی اور اسی لیے مسلم لیگی رہنماؤں کو بھی گرفتار کر لیا گیا کیونکہ ان کا نام بھی ایف آئی آر میں درج تھا۔

لیگی رہنماؤں سلمان رفیق اور حافظ نعمان نے تھانہ گارڈن میں گرفتاری پیش کرتے ہوئے دعوی کیا کہ 13 اپریل کی شام کلمہ چوک کے قریب گاڑی ٹکرانے کے معاملے پر جھگڑے کے دوران میجر حارث پر تشدد کرنے والے ان کے گارڈز اور ملازم تھے۔انہوں نے میڈیا سے گفتگو میں بتایا: ’انہیں واقعے کا اس وقت معلوم ہوا جب پولیس نے گارڈز گرفتار کیا۔ ہمیں معلوم ہوا تو ہم نے کوئی مداخلت نہیں کی۔

وزیراعظم بننے کے بعد سوشل میڈیا صارفین کی شہباز شریف سے توقعات

اگر ہم وہاں موجود ہوتے تو کبھی ملازمین کو تشدد کرنے کی اجازت نہ دیتے۔ خواجہ سلمان رفیق نے کہا کہ انہیں واقعے کا افسوس ہے اور قانونی کارروائی جاری ہے۔ ’اب بھی پولیس کے ساتھ مکمل تعاون کر رہے ہیں اور قانون کا سامنا کرنے کو تیار ہیں۔ جو بھی قانون کے مطابق سزا بنتی ہے، ہم اس کے لیے تیار ہیں۔ ہم نے خود یہاں آکر شامل تفتیش ہونے کی درخواست کی ہے۔

اس واقعہ کی بازگشت جمعرات کو ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل بابر افتخار کی پریس کانفرنس میں بھی سنائی دی، جب ایک صحافی کے واقعے سے متعلق سوال کے جواب میں انہوں نے جواب دیا کہ ’واقعے میں ملوث ملزمان کے خلاف قانونی کارروائی کی جارہی ہے۔ غنڈہ گردی برداشت نہیں کی جاسکتی اور ذمہ داران کو قانون کے مطابق سزا دی جائے گی۔ انہوں نے کہا کہ فوج کا ادارہ اپنے کسی آفیسر کے ساتھ اس طرح کا سلوک برداشت نہیں کرے گا۔

Shahbaz Sharif with army in incident of violence on Major video

Related Articles

Back to top button