یمن ڈرون حملے میں80فوجی ہلاک اورمتعدزخمی

یمن کے وسطی علاقے میں مبینہ طورپرحوثی باغیوں کے میزائل اورڈرون حملوں میں80سےزائد فوجی ہلاک اورسیکڑوں زخمی ہوگئے۔ ذرائع کےمطابق میڈیکل اورعسکری ذرائع کا کہنا تھا کہ حوثی باغیوں اورسعودی سربراہی میں لڑنے والے یمنی حکومتی اتحاد کےدرمیان چند ماہ تک امن رہنے کےبعد یہ پہلی بڑی کارروائی ہے۔
عسکری ذرائع کا کہنا تھا کہ حوثی باغیوں نےدارالحکومت صنعا کے مشرق میں واقع صوبےمارب میں قائم فوجی کیمپ کی مسجد پرحملہ کیا۔ مارب کے مرکزی ہسپتال کے میڈیکل حکام کے مطابق حملے میں ہلاک ہونے والے 83 فوجیوں کی لاشیں اور 148 زخمیوں کو ہسپتال لایا گیا۔ رپورٹ کے مطابق 2014 میں شروع ہونے والی یمن جنگ کے دوران مارب میں اب تک کئی افراد مارے جاچکے ہیں لیکن کسی ایک واقعے میں ہونے والی یہ سب سے زیادہ ہلاکتیں ہیں۔
سعودی ٹی وی الحدث نے حملے کےبعد ویڈیو جاری کی جس میں فرش میں خون اورلاشوں کے ٹکڑوں کو دکھایا گیا ہے۔ یمن میں ڈرون اورمیزائل حملہ ایک ایسے وقت میں ہوا ہے جب ایک روز قبل ہی اتحادی حکومتی فورسز نے صنعا کے شمالی ضلع نیہم میں حوثی باغیوں کے خلاف بڑے پیمانے پر کارروائی شروع کردی تھی۔ سرکاری نیوز ایجنسی کے مطابق نیہم میں حوثی باغیوں کے خلاف کارروائی جاری ہے جہاں درجنوں باغیوں کو مارا گیا ہے اور کئی زخمی ہیں۔ عالمی سطح پر تسلیم شدہ یمنی حکومت کے صدر عبدالرب منصور ہادی نے مسجد پر حملے کی مذمت کی اور اس کارروائی کو دہشت گردی اور بزدلانہ قرار دیا۔
رپورٹ کے مطابق ان کا کہنا تھا کہ ‘حوثی جنگجووں کی شرم ناک کارروائی سے اس بات کی تصدیق ہوگئی ہے کہ وہ یمن میں پائیدار امن نہیں چاہتے کیونکہ وہ جنگ وجدل کے علاوہ کچھ نہیں جانتے اور یہ خطے میں ایران کے آلہ کار ہیں’۔ دوسری جانب حوثی باغیوں کی جانب سے اس کارروائی کی ذمہ داری قبول کرنے کے حوالے سے کوئی بیان سامنے نہیں آیا۔
یاد رہے کہ یمن میں جاری خانہ جنگی میں اب تک ہزاروں افراد مارے جاچکے ہیں اور لاکھوں بے گھر ہوگئے ہیں جبکہ اقوام متحدہ کی جانب سے متعدد مرتبہ انسانی بحران جنم لینے کا خدشہ ظاہر کرتے ہوئے پوری دنیا کو خبردار کیا۔ سعودی عرب کی سربراہی میں اتحادی فوجیوں نے مارچ 2015 میں یمن میں حوثی باغیوں کے خلاف کارروائی شروع کی تھی اور الزام عائد کیا تھا کہ ایران حوثی باغیوں کی پشت پناہی کررہا ہے۔ حوثی باغیوں نے لڑائی کے شروع میں صنعا پر قبضہ کرکے اپنی حکومت بنالی تھی اوردیگرعلاقوں تک جنگ کو پھیلا دیا تھا۔
یمن کی حکومت اور حوثی باغیوں ایک طرف مسلح تصادم میں مصروف ہیں اور دوسری طرف پانچ سال سے جاری بحران میں ایک نیا محاذ کھولتے ہوئے پرانے اورنئے بینک نوٹوں پر تنازع شروع کردیا ہے جس سے ملک میں ایک ہی وقت میں دو معیشتوں کے قیام کا خطرہ پیدا ہو گیا ہے۔ حوثی باغیوں نے عالمی سطح پر تسلیم شدہ یمن کی حکومت کی جانب سے جاری نئے یمنی ریال کو مسترد کیا اور عوام سے پرانے نوٹوں کے استعمال کا مطالبہ کیا۔
ان کا کہنا تھا کہ نئے کرنسی نوٹوں کو مسترد کرنے کا مقصد مہنگائی کے خلاف اقدامات کرنا ہے جبکہ پابندی سے ایک ماہ قبل حوثی باغیوں کے زیر انتظام علاقوں میں عوام قطاروں میں لگ کر نئے نوٹوں کی جگہ پرانے نوٹوں کے حصول میں سرگرداں تھے۔ جس وقت پابندی کا اعلان کیا گیا تو اس وقت ایک ڈالر کے مقابلے میں یمنی ریال کی قیمت 560 تھی اور اعلان کے بعد حوثیوں کے زیر قبضہ علاقوں میں اس کی قدر کم ہو کر 582 جبکہ حکومت کے زیر انتظام جنوبی علاقوں میں مزید کم ہو کر 642 روپے ہو گئی۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button