باپ وزیراعظم اور بیٹا وزیراعلیٰ، بھئی بہت اعلیٰ


مرکز میں شہباز شریف کا وزیراعظم بننا اور پنجاب میں انکے بیٹے حمزہ شہباز کا وزیراعلی ٰمنتخب ہونا سوشل میڈیا پر تنقید کی زد میں ہے۔ ناقدین کا کہنا ہے کے باپ اور بیٹے کو وزیراعظم اور وزیر اعلیٰ بنا کر جو نئی سیاسی تاریخ لکھی گئی ہے وہ قابل رشک نہیں ہے۔ تاہم نواز لیگ والوں کا کہنا ہے کہ حمزہ کو ایمرجنسی میں مجبوری کے تحت وزیر اعلیٰ کا امیدوار بنایا گیا تھا کیونکہ چوہدری پرویز الٰہی نے آخری وقت میں اپوزیشن اتحاد کو دھوکا دے دیا تھا۔ ان کا کہنا ہے کہ ایسے میں تمام اپوزیشن جماعتوں اور پی ٹی آئی کے منحرف گروپس کا حمزہ کے نام پر اتفاق ہوا تھا لہذا انہیں امیدوار بنا دیا گیا۔
یاد رہے کہ 16 اپریل کو ہنگامہ آرائی اور ہاتھا پائی سے بھرپور اجلاس کا مسلم لیگ ق اور تحریک انصاف نے بائیکاٹ کردیا تھا جسکے بعد ہونے والی ووٹنگ میں حمزہ شہباز 197 ووٹ لے کر صوبے کے نئے وزیر اعلیٰ منتخب ہو گئےتھے جبکہ بائیکاٹ کے سبب ان کے مقابل امیدوار چوہدری پرویز الٰہی کو کوئی ووٹ نہیں مل سکا تھا۔ پی ٹی آئی اور قاف لیگ نے اس الیکشن کو متنازعہ قرار دے کر مسترد کر دیا ہے اور گورنر پنجاب حمزہ سے حلف لینے سے انکار کر چکے ہیں۔ دوسری جانب ناقدین کا کہنا ہے کہ ووٹ کو عزت دو کا نعرہ لگانے والی جماعت مسلم لیگ ن ساری عزت اپنے خاندان کو ہی دینے پر تلی بیٹھی ہے، انکا کہنا ہے کہ کیا شہباز شریف کے بیٹے کے علاوہ مسلم لیگ نون میں اور کوئی ایسی قدآور شخصیت نہیں تھی جو وزارت اعلیٰ سنبھال پاتی۔ اس تنقید کے جواب میں نواز لیگ کا کہنا ہے کہ پارلیمانی روایت کے مطابق ہمیشہ اپوزیشن لیڈر ہی وزارت اعلیٰ کا امیدوار بنتا ہے اور پنجاب اسمبلی میں ہم زندہ ہی قائد حزب اختلاف تھے۔
اردو نیوز کی ایک رپورٹ کے مطابق صحافی آصف شہزاد نے حمزہ شہباز کے وزیراعلیٰ منتخب ہونے پر ٹویٹر پر طنزاً لکھا کہ ’باپ وزیراعظم، بیٹا وزیراعلیٰ، بہت اعلیٰ بھئی بہت اعلیٰ۔‘ پی ٹی آئی کے رہنما تیمور خان جھگڑا نے ن لیگ پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ شہباز شریف وزیراعظم، حمزہ شہباز وزیراعلیٰ، صدر زرداری اور بلاول بھٹو زرداری وزیر خارجہ ہوں گے۔ انہوں نے اسے ’پرانا پاکستان‘ قرار دیا۔ انہوں نے طنزاً لکھا کہ ’جمہوریت واقعی بہترین انتقام ہے اور ووٹ کو عزت مل گئی۔‘
سوشل میڈیا پر جہاں پنجاب اسمبلی میں ہونے والے جھگڑے اور خاندانی سیاست پر تنقید ہوئی وہیں کچھ صارفین کو حمزہ شہباز کی بطور وزیر اعلیٰ پہلی تقریر پسند بھی آئی۔ مینا گبینا نے ایک ٹویٹ میں لکھا کہ ’حمزہ نے موٹر وے ریپ کیس جیسا افسوسناک معاملہ بھی اٹھایا۔ اور مجھے خوشی ہے کہ پنجاب کا ایک سیاستدان اس معاملے میں دلچسپی لے رہا ہے۔‘ اجلاس کے دوران وزارت اعلیٰ کے امیدوار پرویز الٰہی کو لگنے والی چوٹ کا بھی چرچہ سوشل میڈیا پر رہا۔
پی ٹی آئی کے سابق وزیر علی محمد خان نے ایک ٹویٹ میں لکھا کہ ’جو پنجاب اسمبلی میں ہوا یا اب ہورہا ہے یہ جمہوریت نہیں۔ مجھے چوہدری پرویز الٰہی کے زخمی ہونے پر انتہائی افسوس ہے۔‘
سوشل میڈیا پر کچھ لوگ پنجاب اسمبلی میں ہونے والے جھگڑے کی ویڈیو لگا کر یہ بھی دعویٰ رہے ہیں کہ چوہدری پرویز الٰہی نے غیر متعلقہ افراد کو ایوان میں بلاکر جھگڑے کی شروعات کی۔ تاہم کچھ سوشل میڈیا صارفین ایسے بھی ہیں جو چودھری پرویزالٰہی کی جانب سے پٹائی کے دعوے کو ڈرامہ قرار دے رہے ہیں۔سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو بھی وائرل ہے جس میں ایک بچہ چوہدری پرویز الٰہی جیسی سفید شلوار قمیض پہنے اپنی بازو پر پٹی باندھ کر زخمی شخص کی ایکٹنگ کرتے ہوئے ان کے دعوے کا مذاق اڑانے کی کوشش کر رہا ہے۔
لیکن بات پنجاب کی ہو اور سابق وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کا نام نہ آئےیہ کیسے ممکن ہے۔ سوشل میڈیا پر فہمیدہ یوسف کی ایک ٹوئٹ بہت زیادہ وائرل ہے جس میں عثمان بزدار کی تصویر لگا کر ان کی جانب سے لکھا گیا ہے کہ افسوس کی بات ہے کہ چوہدری پرویز الٰہی کے ٹوٹے بازو پر تو اظہار افسوس کیا جا رہا ہے لیکن میرے ٹوٹے دل کی کسی کو پروا نہیں ہے۔
واضح رہے کہ خود پر ہونے والے تشدد کا الزام چوہدری پرویز الٰہی نے نو منتخب وزیراعلیٰ حمزہ شہباز پر لگایا ہے۔ پرویزالٰہی کی جانب سے پولیس کو حمزہ اور شہباز شریف کے خلاف پرچہ درج کرنے کی درخواست بھی دی گئی تھی لیکن پولیس نے یہ موقف اپنایا ہے کہ پہلے آپ اپنا میڈیکل لیگل کروا کر اپنے زخموں کو ثابت کریں پھر پرچہ درج ہوگا۔ پرویز الٰہی پولیس کے اس موقف کے خلاف عدالت میں جا چکے ہیں لیکن وہاں بھی انہوں نے کوئی میڈیکولیگل رپورٹ جمع نہیں کروائی۔

Related Articles

Back to top button