گیلانی کے پٹیشن مسترد ہونے کے بعد PPP کے پاس کیا آپشن ہے؟


اسلام آباد ہائی کورٹ کی جانب سے صادق سنجرانی کے چیئرمین سینیٹ قرار دیے جانے کے خلاف یوسف رضا گیلانی کی درخواست خارج ہونے کے بعد سوال یہ ہے کہ کیا پیپلزپارٹی اب سپریم کورٹ سے رجوع کرے گی یا سنجرانی کے خلاف تحریک عدم اعتماد لائے گی جیسا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے بھی مشورہ دیا ہے۔ تاہم سیاسی تجزیہ کار کہتے ہیں کہ ایک ایسے وقت میں کہ جب اپوزیشن کی دونوں بڑی جماعتیں پیپلزپارٹی اور نوازلیگ سینیٹ میں قائد حزب اختلاف کے عہدے کے لیے کوشاں ہیں، سنجرانی کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانا ناممکن نظر آتا ہے۔ لہازا پیپلز پارٹی کے پاس واحد راستہ سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹانے کا ہے لیکن اب وہاں سے بھی ہائی کورٹ کے فیصلے کے بعد انصاف ملنے کی امید بہت کم ہے۔ تجزیہ کار کہتے ہیں کہ پاکستان کی عدلیہ ایک سیاسی عدلیہ ہے جو میرٹ اور قانون کی وجہ سے دباؤ اور مفاد کے تحت فیصلے دیتی ہے۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے گیلانی کیس میں فیصلے کے بعد پارلیمان کو سوچنا ہو گا کہ وہ کوئی ایسا فورم تشکیل دے جو ایسے سیاسی تنازعات کو عدالتوں سے باہر حل کرے۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے بھی گیلانی کی پٹیشن ناقابلِ سماعت قرار دیتے ہوئے ریمارکس دیے تھے کہ پارلیمانی معاملات عدالت میں لانے کی بجائے پارلیمنٹ کو خود ان کا حل تلاش کرنا چاہیے۔ عدالت نے آئین کے آرٹیکل 69 کا حوالہ دیا تھا جس کے مطابق پارلیمان میں ہونے والی کسی بھی کارروائی کو آئین کا تحفظ حاصل ہے اور یہاں پر ہونے والی کسی کارروائی کو کسی عدالت میں چیلنج نہیں کیا جا سکتا۔
خیال رہے کہ حال ہی میں چیئرمین سینیٹ کے الیکشن میں اس وقت تنازع کھڑا ہو گیا تھا جب حکومتی اتحاد سے تعلق رکھنے والے پریزائڈنگ آفیسر سید مظفر علی شاہ نےاپوزیشن جماعتوں کے اُمیدوار یوسف رضا گیلانی کے سات ووٹ صرف اس بنیاد پر مسترد کر دیے کہ ان میں مہر گیلانی کے نام کے اوپر لگی ہوئی تھی۔ یوں سینیٹ میں اقلیت ہونے کے باوجود حکومتی اُمیدوار صادق سنجرانی کو غیر متوقع کامیابی مل گئی جس کا سارا کریڈٹ سید مظفر شاہ کو جاتا ہے کیونکہ انہیں معلوم تھا کہ اسپیکر کی رولنگ کو ملک کی کسی عدالت میں بھی چیلنج نہیں کیا جاسکے گا۔ گیلانی کے ساتھ ووٹ مسترد کرتے ہوئے جی ڈی اے کے پریزائیڈنگ آفیسر مظفر شاہ نے کہا کہ سات سینیٹرز نے انتخابی قواعد کو نظر انداز کرتے ہوئے غلط مقام پر مہر لگائی جب کہ پیپلزپارٹی نے عدالت میں درخواست دائر کی تھی کہ قانونی طور پر یہ ووٹ مسترد نہیں ہو سکتے کیونکہ وہ ڈالنے والوں نے اپنی چوائس کی بھرپور نشاندہی کی ہے۔
سپریم کورٹ آف پاکستان کے سینئر وکیل حامد خان ایڈوکیٹ کا کہنا ہے کہ آئین کا آرٹیکل 69 پارلیمان میں ہونے والی بحث کو تحفظ فراہم کرتا ہے۔ لیکن چیئرمین سینیٹ کے الیکشن کی کارروائی کو آئینی تحفظ حاصل نہیں ہے۔ اُن کے بقول اگر یوسف رضا گیلانی درخواست دائر کریں تو سپریم کورٹ اب بھی سنجرانی کے الیکشن کو کالعدم قرار دے سکتی ہے۔ پاکستان میں جمہوری اقدار اور قانون سازی کے لیے کام کرنے والی غیر سرکاری تنظیم ‘پلڈاٹ’ کے سربراہ احمد بلال محبوب کہتے ہیں کہ پارلیمان کو اس بات پر سوچنا ہو گا کہ کوئی ایسا فورم تشکیل دیا جائے جہاں عدالتوں میں جائے بغیر سیاسی تنازعات کو حل کیا جا سکے۔ حامد خان نے اس حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے اس فیصلہ کو چیلنج کرنے کے لیے سپریم کورٹ آف پاکستان کا فورم ابھی موجود ہے۔ اس سوال پر کہ پارلیمان کے مسائل عدالتوں میں کیوں آتے ہیں، حامد خان کا کہنا تھا کہ پارلیمان میں متاثرہ فریق کی شنوائی کے لیے کوئی فورم موجود نہیں ہے۔ لہذٰا اس صورت میں ان کے لیے عدالت کا فورم ہی موجود تھا۔
بنیادی انسانی حقوق اور کسی جگہ شنوائی نہ ہونے سے متعلق آرٹیکل 10 کے بارے میں حامد خان نے کہا کہ آئین میں لکھا ہے کہ اگر کسی شخص کی کسی جگہ شنوائی نہ ہو رہی ہو تو اس آرٹیکل کے مطابق عدالتیں اس بات کی پابند ہیں کہ وہ کسی بھی متاثرہ شخص کی بات سنیں۔ اس بنیاد پر بھی سپریم کورٹ آف پاکستان میں اپیل دائر کی جا سکتی ہے۔ احمد بلال محبوب نے اس حوالے سے کہا کہ پارلیمان میں اس حوالے سے کوئی فورم ہونا چاہیے جہاں اس قسم کے معاملات پر الگ سے بحث کرکے انہیں عدالتوں میں جانے سے پہلے ہی حل کر لیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ موجودہ حالات میں سینیٹ الیکشن کے دوران پریزائیڈنگ افسر نے جو رویہ اختیار کیا اور ناموں پر مہر لگانے پر ووٹ مسترد کیے اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ پریزائیڈنگ افسر کا یہ فیصلہ درست نہیں تھا اور بد نیتی پر مبنی تھا، لیکن یہ فیصلہ ہو گیا اور اب اسلام آباد ہائی کورٹ نے بھی آرٹیکل 69 کا حوالہ دے کر اس معاملے میں مداخلت سے انکار کر دیا ہے۔ احمد بلال محبوب نے کہا کہ "میرے خیال میں پیپلز پارٹی اس معاملے کو سپریم کورٹ آف پاکستان میں چیلنج کرے گی کیوں کہ عدالت نے فیصلے میں الیکشن کے عمل کو پارلیمان کی پروسیڈنگ قرار دیا ہے جب کہ بعض قانونی ماہرین کی نظر میں سینیٹ میں کسی بل یا قانون سازی پر بات نہیں ہو رہی تھی کہ انہیں آئینی تحفظ دیا جائے۔”
احمد بلال کے بقول اس نکتے کو پیپلز پارٹی چیلنج کرے گی اور دوسرا عدالت نے سنجرانی کے خلاف عدمِ اعتماد کی تحریک لانے کا مشورہ دیا ہے ل لیکن پیپلز پارٹی کے وکیل فاروق نائیک کا یہ موقف ہے کہ جب ہم سنجرانی کو چیئرمین سینیٹ ہی تسلیم نہیں کرتے تو ان کے خلاف عدم اعتماد کیوں لے کر آئیں۔ ایسا کرنا تو انہیں چیئرمین سینٹ قبول کرنے کے مترادف ہوگا۔
یاد رہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے تحریری فیصلے میں کہا گیا تھا کہ گیلانی کے مطابق پی ڈی ایم کے پاس چیئرمین سینٹ کے لیے اکثریت موجود ہے، اگر اکثریت موجود ہے تو پی ڈی ایم نہ صرف چیئرمین سینیٹ کو ہٹا سکتی ہے بلکہ یوسف رضا گیلانی کو چیئرمین سینیٹ بنا بھی سکتی ہے۔عدالتی فیصلے میں کہا گیا تھا کہ سینیٹ کے ارکان کا یہ طریقہ استعمال کرنے سے پارلیمان کی عزت اور خود مختاری میں اضافہ ہو گا۔جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے تھے کہ عدالت مطمئن ہے کہ آئینی طریقۂ کار کے استعمال سے واضح ہوجائے گا کہ ان سات سینیٹرز نے یوسف رضا گیلانی کو ووٹ دیا تھا۔ یہ عدالت پارلیمان کے استحقاق سے متعلق آئین کے آرٹیکل 69 کے تحت تحمل کا مظاہرہ کر رہی ہے۔
سیاسی تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ بظاہر موجودہ صورتِ حال میں عدالت اس قسم کے پارلیمانی مسائل پر فیصلے دینے سے احتراز کرنا چاہ رہی ہے۔ ویسے بھی ہائی کورٹ نے یہی سوچا ہوگا کہ اس اہم ترین معاملے پر اگر کسی عدالت میں فیصلہ دینا ہے تو وہ سپریم کورٹ کی ہو۔ دوسری جانب سپریم کورٹ کی جانب سے مسلسل الیکشن کمیشن کے فیصلوں کے خلاف فیصلے دینے کا عمل جاری ہے جس کی بنا پر اپوزیشن حلقے سنجرانی کے خلاف فیصلہ آنے کے حوالے سے زیادہ پرامید نہیں ہیں۔
خیال رہے کہ بارہ مارچ کو ہونے والے چیئرمین سینیٹ الیکشن کے دوران حکومتی امیدوار صادق سنجرانی نے 48 ووٹ حاصل کر کے پی ڈی ایم کے مشترکہ امیدوار یوسف رضا گیلانی کو شکست دی تھی۔یوسف رضا گیلانی نے 42 ووٹ حاصل کیے لیکن پریزائیڈنگ آفیسر کے مطابق ناموں کے آگے موجود خانے کے بجائے نام پر مہر لگانے کی وجہ سے یوسف رضا گیلانی کے سات ووٹ مسترد ہوئے۔
پیپلز پارٹی نے اس پر بھرپور اجتجاج کیا لیکن پریزائیڈنگ افسر کی رولنگ کے بعد صادق سنجرانی نے بطور چیئرمین سینیٹ حلف اٹھایا اور اس کے بعد ڈپٹی چیئرمین کے انتخاب میں بھی پی ڈی ایم کے امیدوار عبدالغفور حیدری کو شکست ہوئی اور حکومتی امیدوار مرزا آفریدی ڈپٹی چیئرمین منتخب ہو گئے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلے پر پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو نے اپنے ردِعمل میں کہا کہ ہماری پارٹی آئین اور پارلیمان کی بالادستی میں یقین رکھتی ہے لیکن پولنگ اسٹیشن پر پولنگ عمل کو پارلیمانی کارروائی قرار نہیں دیا جا سکتا۔بلاول بھٹو زرداری نے اس معاملے پر ہر فورم سے رُجوع کرنے کا بھی عندیہ دیا تھا۔
دوسری جانب حکومتی وزیر سائنس و ٹیکنالوجی فواد چوہدری نے کہا کہ جسٹس اطہر من اللہ نے ارکان پارلیمان کو آئینہ دکھا دیا ہے کہ وہ ہر معاملہ میں عدلیہ کو ملوث کرنے کے بجائے کوئی ایسا میکنزم بنائیں جس کی مدد سے سیاسی تنازعات کو پارلیمان کے اندر حل کیا جاسکے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button