عمران خان اپنے بیانیے سے اداروں کو ناراض کر رہے ہیں


سینئر صحافی و تجزیہ کار سہیل وڑائچ نے کہا ہے کہ عمران خان کو ایک آئینی عمل کے ذریعے اقتدار سے اپنی رخصتی کو جمہوری حقیقت سمجھ کر تسلیم کر لینا چاہیے، بجائے کہ وہ سازشی نظریات پر مبنی الزامات لگا کر اداروں سے اپنے تعلقات بگاڑ لیں اور دوبارہ کبھی حکومت میں نہ آ پائیں۔
جیو ٹی وی پر گفتگو کرتے ہوئے سہیل وڑائچ نے عمران خان کو مشورہ دیا کہ وہ ان اداروں کیساتھ اپنے تعلقات نہ بگاڑیں جو ماضی میں ان کے محسن رہے کیونکہ اگر انہوں نے یہی رویہ اختیار کئے رکھا تو ان کے آئندہ اقتدار میں آنے کا امکان مکمل طور پر ختم ہو جائے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ اپنے خلاف تحریک عدم اعتماد دائر ہونے کے بعد سے عمران خان نے جو رویہ اپنا رکھا ہے وہ کسی سیاستدان کو زیب نہیں دیتا، پاکستان میں پارلیمانی جمہوری نظام رائج ہے جس کے تحت انہیں تحریک عدم اعتماد کے ذریعے اقتدار سے فارغ کیا گیا ہے، سہیل وڑائچ کا کہناتھا کہ کھیل کی طرح سیاست میں بھی ہار جیت ہوتی رہتی ہے لہذا خان صاحب کو سپورٹس مین اسپرٹ دکھاتے ہوئے اپنی اپوزیشن کی جیت کو تسلیم کر لینا چاہیے۔ ان کا کہنا تھا کہ عمران خان نے اپنے پونے چار برس کے اقتدار کے دوران نفرت اور گالی کی سیاست کو فروغ دیا، بجائے کہ وہ عوامی فلاح پر فوکس کرتے، اور اقتدار سے باہر ہونے کے بعد بھی خان صاحب وہی پرانی سیاست کر رہے ہیں جس کا انہیں فائدہ نہیں بلکہ نقصان ہوگا۔
سہیل وڑائچ کا کہنا تھا کہ عمران خان تو چاہتے ہیں کہ چھ ماہ میں الیکشن ہو جائیں،تاکہ وہ جلدی سے جلدی دوبارہ اقتدار کی منزل کو پالیں، لیکن سوال یہ ہے کہ انہوں نے اپنے پچھلے دور حکومت میں ایسا کونسا تیر مارا تھا جو اب دوبارہ اقتدار میں آ کر مارنا چاہتے ہیں؟ انہوں نے کہا کہ اگر عمران نے اپنے پونے چار سالہ دور حکومت میں عوام کی فلاح اور پاکستان کی ترقی کا ایجنڈا آگے بڑھایا ہوتا تو نہ تو وہ آج اقتدار سے محروم ہوتے اور نہ ہی انہیں اپنی فراغت کو ایک سازش قرار دینے کے لیے الزامات کا سہارا لینا پڑتا ہے۔ میزبان کے اس سوال پر کہ کیا عمران نئی حکومت کو مدت پوری کرنے دینگے؟ سہیل وڑائچ نے کہا کہ وہ اپنی روش اور طبیعت کے مطابق مشکلات تو ڈالیں گے، انہوں نے قومی اسمبلی سے استعفے دے کر بھی بحران پیدا کرنے کی کوسش کی ہے، وہ جلسے جلوس کر کے بھی بھر پور کوشش کریں گے کہ بحران میں اضافہ ہو، لیکن یہ شہباز شریف کے تدبر اور گورنس کا بھی امتحان ہے کہ وہ ان تمام رکاوٹوں کے باوجود حکومت چلائیں، خاص کر معیشت اور گورنس کو ٹھیک کریں، اگر شہباز شریف ایسا کرنے میں کامیاب ہو گئے تو وہ اپنا دور اقتدار بھی پورا کر لیں گے۔
سینئر تجزیہ کار نے کہا کہ اگر عمران نے اپنی موجودہ روش ترک نہ کی تو جس ادارے کی وجہ سے وہ اقتدار میں آئے تھے اور اتنی بھر پور طاقت اور آسانی کے ساتھ حکومت کرتے رہے، وہ دوبارہ کبھی ان کو حکومت میں آنے کا موقع نہیں دے گا۔ سہیل وڑائچ کا کہنا تھا کہ عمران خان اپنے ہیجان انگیز رویے سے نہ صرف اداروں کو دھمکا رہے ہیں بلکہ ان کے اپنے ہمدرد بھی ان سے خوف زدہ ہونا شروع ہو گئے ہیں۔ یہ کوئی اچھی حکمت عملی نہیں اور وہ باز نہ آئے تو اگلے الیکشن میں انہیں فائدے کی بجائے نقصان ہو جائے گا۔ سہیل وڑائچ نے کہا کہ اب تو فوجی ترجمان نے بھی اس بات کی تصدیق کردی ہے کہ تحریک عدم اعتماد داخل ہونے کے بعد بھی جب عمران نے فوج کی مدد مانگی تو وہ حزب اختلاف سے بات کرنے کو تیار ہو گئی، لیکن یہ الگ بات کہ اپوزیشن نے عمران کی شرائط نہیں مانیں، تاہم بنیادی بات یہ ہے کہ اگر عمران نے اداروں کو اپنے خلاف کر لیا تو یہ اپنی سیاسی تباہی کی حکمت عملی ہوگی۔
سہیل وڑائچ نے کہا کہ ماضی میں سپریم کورٹ کا کوئی فیصلہ عمران خان کے خلاف نہیں آیا تھا، قاسم سوری کی جانب سے تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ نہ کرانے اور قومی اسمبلی توڑنے کا فیصلہ غیر آئینی قرار دینے سے خان صاحب کے بیرونی سازش کے بیانیے کی بھی نفی ہوگئی۔ انکا کہنا تھا کہ اس ڈیڈ لاک میں سپریم کورٹ کے پاس بھی کوئی راستہ نہیں تھا، سوائے فیصلہ دینے کے جسے عمران خان نے تسلیم کرنے سے انکار کرتے ہوئے آخری لمحے تک مزاحمت کی، سہیل وڑائچ کا کہنا ہے کہ عمران خان کو گریس کا مظاہرہ کرنا چاہیے تھا کیونکہ جو رویہ انھوں نے اپنایا اس سے ان کی سیاسی ساکھ بہت حد تک متاثر ہوئی ہے۔ سابق وزیر اعظم کے امریکہ مخالف بیانیے پر گفتگو کرتے ہوئے سہیل وڑائچ نے کہا کہ ایسا کرکے عمران خان عوام کی ہمدردیاں تو سمیٹ لیں گے لیکن پاکستانی اداروں کی ہمدردی کھو بیٹھیں گے جن کے بل پر وہ وزیراعظم بنے تھے۔

Related Articles

Back to top button