کراچی حملے میں خاتون کو استعمال کرنے کا اصل مقصد کیا تھا؟

کراچی میں خاتون بمبار کے خودکش حملے کی تحقیقات کرنے والوں کا کہنا ہے کہ بلوچ لبریشن آرمی نے اپنا طریقہ کار بدلتے ہوئے گوریلا حملے کی بجائے ایک خاتون بمبار کو استعمال کر کے یہ پیغام دیا ہے کہ انکی صفوں میں صرف مرد ہی نہیں بلکہ خواتین بھی شامل ہیں

جو بلوچ قوم کے حقوق کے لیے اپنی جان دینے سے بھی گریز نہیں کرتیں۔

چینی باشندوں پر ہونے والے حملے کی تحقیقات کرنے والوں کا کہنا ہے کہ دنیا بھر میں کسی بھی تحریک یا گروپ کو طاقتور بنا کر دکھانے کے لیے خواتین خودکُش حملہ آوروں سے کام لیا جاتا ہے۔ اسکا دوسرا بڑا مقصد یہ ہے کہ دنیا بھر میں جہاں کہیں خواتین خودکش حملہ آوروں نے کارروائی کی، اُسے انٹر نیشنل میڈیا میں بہت وسیع پیمانے پر کوریج ملی۔ تحقیقات کرنے والوں کا کہنا ہے کہ ایک خاتون خود کش بمبار کو استعمال کر کے یہ بتایا گیا ہے کہ بلوچ کاز کتنا اہم ہے جس کے لیے لڑکیاں بھی اپنی جان کی قربانیاں دینے سے گریز نہیں کرتیں۔

خودکُش حملہ کرنے والی شاران بلوچ کا معاملہ اس لئے بہت عجیب ہے کہ وہ دو کمسن بچوں کی ماں تھی جس کو یہ بھی معلوم تھا کہ اس واقعے کے بعد اس کا ڈاکٹر شوہر بھی گرفتار ہو جائے گا اور بچے خوار ہو جائیں گے۔ تاہم اس نے اپنے ذاتی مفاد کو بالائے طاق رکھتے ہوئے بلوچ قوم کے لئے اپنی جان کی قربانی دینے کا فیصلہ کیا۔ شاران بلوچ نے خودکش مشن پر جانے سے پہلے اپنی سہیلیوں کے لیے ایک آڈیو پیغام بھی چھوڑا جو اب سوشل میڈیا پر وائرل ہے۔

بلوچی زبان میں اپنے پیغام میں شاران نے کہا کہ ہمارے بھائیوں نے مادر وطن کیلئے جنگ کا اعلان کرتے ہوئے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرنے کا عہد کررکھا ہے،لہٰذا کیوں نہ ہم بہنیں بھی دوپٹے سروں پر اوڑھ کر گھروں میں بیٹھنے کی بجائے آزادی کی اس جنگ کا حصہ بنیں۔ شاران نے کہا کہ جو ذمہ داری ہمارے بھائیوں کے کندھوں پر ہے، اس ذمہ داری کو ہم اپنے کندھوں پر کیوں نہ لیں؟ یہ ذمہ داری اس سر زمین پر بسنے والے ہر بھائی، بہن اور بچے پر فرض ہے۔ بزدل دشمن کے مظالم ہماری سر زمین پر صرف ایک دن کیلئے نہیں بلکہ ایک عرصے سے جاری ہیں اور اس بزدل دشمن کے پاؤں کے نشانات ہماری سرزمین پر برسوں تک رہیں گے۔ شاران نے کہا کہ بزدل دشمن یہ نہیں دیکھتا کہ ہم خواتین ہیں اور ہمارا ایک احترام ہے، وہ یہ بھلا کر اور تمام روایات پامال کرتے ہوئے طرح طرح کے مظالم ڈھارہا ہے۔

اس بزدل دشمن کے ہاتھوں ہماری ناموس اور عزت سمیت کچھ محفوظ نہیں۔ لہٰذا کیوں نہ ایسے بزدل دشمن کے سامنے ہم بہنیں اپنے بھائیوں کے شانہ بشانہ کھڑی ہو جائیں۔ آئیں آج ہم اپنے شہداء کے خون کا قسم کھائیں کہ ہم اپنی سر زمین کو محفوظ رکھنے کیلئے اپنے بھائیوں کے بازو بنیں گی تا کہ ہم جلد اپنی منزل تک پہنچ سکیں۔ شاران نے کہا کہ میری بہنوں، ریاستی لشکر ہمارے ساتھ وہی سلوک کرے گا جو اس نے بنگالی عوام کے ساتھ کیا تھا، اس لیے ہمیں سوچنا ہو گا کہ ہم کون ہیں اور ہمیں کیا کرنا چاہئے۔ میں آخر میں یہ دعا کرتی ہوں کہ بلوچ قوم کو جلد از جلد آزادی نصیب ہو۔

ایک 30 سالہ بلوچ خاتون کی جانب سے کیے جانے والے خودکش حملے کے بعد کراچی یونیورسٹی کے شعبہ بین الاقوامی امور کے سابق پروفیسر اور تجزیہ کار ڈاکٹرمونس احمر کا کہنا تھا کہ اس واقعے کی ذمہ داری قبول کرنے والی بلوچ لبریشن آرمی ایک عرصے سے چین کے پاکستان میں بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کی مخالفت کرتی آئی ہے۔ یہ گروپ چین کی سرگرمیوں کو بھی بلوچ قوم کے حقوق کی پامالی کی ایک بڑی وجہ گردانتا ہے۔ ماضی میں بھی یہ دیامیر بھاشا ڈیم سمیت دیگر علاقوں میں حملے کرتے رہے ہیں۔ اس بار کراچی یونیورسٹی جیسی بڑی جامعہ میں اس طرح کا حملہ کر کے بلوچ لبریشن آرمی نے بین الاقوامی توجہ اپنی طرف مبذول کروالی ہے۔

کراچی یونیورسٹی ایک عرصے سے ماضی کے مقابلے میں نسبتاً پُرامن رہی ہے۔ ایسے میں اچانک اس نوعیت کے دہشت گردانہ حملے کے پیچھے کون سے عوامل کارفرما ہو سکتے ہیں؟ اس بارے میں جامعہ کراچی شعبہ بین الاقوامی تعلقات کی پروفیسر شائستہ تبسم کا کہنا تھا کہ جامعہ کراچی ایک بہت بڑا ادارہ ہے جہاں ملک بھر کے علاوہ غیر ملکوں سے بھی طلبہ اور اساتذہ آتے ہیں۔ کچھ عرصے سے سکیورٹی بھی کافی نرم کر دی گئی ہے گاڑیاں اور پبلک ٹرانسپورٹ بھی بغیر کسی روک ٹوک کے اب آ جا سکتی ہے۔

دیگر ایسے مقامات جہاں چینی یا دیگر غیر ملکی موجود ہوں، وہاں سکیورٹی سخت ہوتی ہے۔ کراچی یونیورسٹی اس وقت دہشت گردوں کے لیے ایک سافٹ ٹارگٹ تھا جہاں چینی اور دیگر غیر ملکی بغیر کسی سکیورٹی کے انتظام کے اپنی کلاس رومز سے اپنی رہائش گاہوں کی طرف آتے جاتے رہتے ہیں۔ ڈاکٹر تبسم نے کہا کہ یہ حملہ دراصل سی پیک پر کیا گیا اور اس وقت کا تعین اس بات کا ثبوت ہے۔

بلوچ قوم پرست چینیوں کو کیوں نشانہ بنا رہے ہیں؟

ان کا کہنا تھا اس وقت جو شریف حکومت بر سر اقتدار ہے اس کے بارے میں یہی خیال کیا جاتا ہے کہ اس نے ماضی میں بھی سی پیک پر غیر معمولی توجہ مرکوز رکھی جبکہ اس سے پہلے والی حکومت کے دور میں سی پیک پر کام کافی حد تک سست روی کا شکار ہوا تھا۔ جس گروپ نے اس واقعے کی ذمہ داری قبول کی ہے وہ موجودہ حکومت کو یہ پیغام دینا چاہتا تھا کہ سی پیک پر دوبارہ سے تیزی سے کام شروع کرنے سے باز رہا جائے، کیونکہ بی ایل اے والے یہ سمجھتے ہیں کہ سی پیک سے بلوچستان کی خود مختاری اور اس کے ریسورسز غیر ملکی کنٹرول میں چلے جائیں گی۔ لہٰذا چینیوں کو حملے کا ہدف بنانا ایک واضح اشارہ ہے جو کہ نئی حکومت کے لیے یہ ایک بڑا چیلنج ہے۔

What was the real purpose of using woman in Karachi attack? video

Related Articles

Back to top button